سن 2020 کے امریکی صدارتی انتخابات پر سامنے آنے والی ایک تجزیاتی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک میں سماجی بہبود کی نامنہاد تنظیمیں بہت بری طرح سے انتخابات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ رپوٹ کے مطابق یہ غیر سرکاری تنظیمیں دراصل بڑی مقدار میں پیسے کو انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کرتی ہیں لیکن اس حوالے سے قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے انکا اس پر احتساب بھی نہیں ہوپاتا۔
رپورٹ میں فیس بک کے مالک کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ زکربرگ اور انکے دیگر ہم فکر افراد نے 2020 انتخابات کے دوران صرف دو تنظیموں سنٹر فار ٹیکنالوجی اینڈ سوک لائیف اور سنٹر فار الیکشن اینوویشن اینڈ ریسرچ کو تقریباً 42 کروڑ ڈالر کی خطیر رقم بطور چندہ دی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ رقم بلاشبہ جوبائیڈن کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کی گئی اور اس سے جمہوریت کے شفاف عمل پر اثرانداز ہوا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ادارتی سطح پر ایسی اثر اندازی کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی، اس سے جوبائیڈن کے بیانیے کو سہارا دیا گیا اور انتخابات کو من چاہی سمت کی طرف موڑا گیا۔
فیڈرلسٹ میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق 42 کروڑ کی خطیر رقم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وفاقی حکومت نے کووڈ-19 وباء کے دوران صورتحال سے نمٹنے کے لیے 47 کروڑ ڈالر مختص کیے تھے، جبکہ تقریباً اتننی ہی رقم صرف چند لبرل افراد نے محض 2 غیر سرکاری تنظیموں کو چندے میں دے دی اور اس سے انتخابی بیانیے کو ڈیموکریٹ نمائندے جو بائیڈن کی طرف موڑنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جن میں ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے اور دور دراز علاقوں میں کام کرنے والے انتخابی عملے کو اضافی پیسے دینے کی حساس و متنازعہ مہم بھی شامل تھی۔
رپورٹ پر اپنے ردعمل میں تنظیموں نے الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے وہ غیر جانب داری سے کام کرتی ہیں تاہم تجزیاتی گروہ کا اصرار ہے کہ تنظیموں کے کام نے بلاشبہ ڈیموکریٹ نمائندے جو بائیڈں کو مظبوط کیا اور انتخابی بیانیہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف زور پکڑ گیا۔
رپورٹ میں انتخابی نتائج اور حالات و واقعات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سنٹر فار ٹیکنالوجی اینڈ سوک لائیف نے جن 26 ریاستوں میں کام کیا اور تقریباً ہر ریاست کے مضافاتی علاقوں میں انتخابی عملے کی تربیت اور دیگر معاملات کے لیے ہر فی انتخابی اسٹیشن 10 لاکھ ڈالر کی رقم خرچ کی، ان 26 میں 25 ریاستوں میں جو بائیڈن کامیاب ہوئے۔ ماہرین کے مطابق تمام ریاستوں کا تجزیہ ابھی باقی ہے لیکن صرف ٹیکساس کا تفصیلی جائزہ بتاتا ہے کہ تنظیموں کی جانب سے صدر بائیڈں کی جیتی گئی ریاست میں فی کس رقم کا اصراف ماضی کی نسبت انتہائی زیادہ تھا۔
تجزیاتی رپورٹ کی ابتدائی اشاعت میں لکھا گیا ہے کہ سی ٹی سی ایل اور سی ای آئی آر نے بلاشبہ 2020 کے انتخابات پر اثر ڈالا، اسے انتخابی دھاندلی تو نہیں کہا جا سکتا لیکن اسے شفاف انتخابات بھی نہیں کا جا سکتا، متذکرہ تنظیموں نے نظام میں موجود کمزویوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا گیا اور جمہوریت کو نقصان پہنچایا۔
رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ انتخابات میں چندے کے استعمال اور ذرائع پر مزید قانون سازی کی ضرورت ہے، 2020 کے انتخابات میں تنظیموں کی جانب سے انتخابی عملے اور شہریوں کو خاص بائیں بازو کے پراپیگنڈے کا شکار بنایا گیا۔ تجزیاتی رپورٹ پر کام کرنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ انتخابات کے دن ڈاک کی سہولت کی اجازت کی مہم بھی سی ٹی سی ایل نے ہی چلائی جس سے بالآخر غیر قانونی ووٹ ڈالنے کا رستہ ہموار ہوا۔