طالبان کے سربراہ مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ نے بین الافغان مذاکرات کے لیے شیخ عبدالحکیم کو کلیدی مذاکرات کار مقرر کیا ہے۔ شیخ عبدالحکیم طالبان کے سابق قاضی القضاء رہ چکے ہیں اور قندھار کے رہائشی ہیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ہفتے کی شب پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ شیخ عبدالحکیم اشرف غنی کی انتظامیہ کے ساتھ امن مذاکرات میں گروپ کی 21 رکنی ٹیم کی سربراہی کریں گے۔ جبکہ شیر محمد عباس ستانکزئی مذاکرات میں ان کے نائب ہوں گے۔ مذاکرات آئندہ چند روز میں دوحہ میں شروع ہونے کی امید ہے۔ جس میں طالبان کی ٹیم کو مکمل اختیارات دیے گئے ہیں، اور کمیٹی موقع پر ہی فیصلے کرنے کی مجاذ ہو گی۔
دوسری طرف طالبان نے اپنی ترجمانی کے لیے سہیل شاہین، جو کہ عرصہ دراز سے جماعت کی ترجمانی کر رہے تھے کی جگہ محمد نعیم وردک کو ذمہ داریاں سونپی ہیں۔
عالمی میڈیا کا کہنا ہے کہ شیخ عبدالحکیم کی تقرری انتہائی اہم ہے، اور ان کی تعیناتی سے طالبان کی مستقبل کی حکمت عملی کی عکاسی ہوتی ہے۔ شیخ عبدالحکیم کا شمار طالبان کے اہم دینی رہنماؤں میں ہوتا ہے اور وہ ملا عمر کے سپاہی اور 90 کی دہائی میں طالبان کی حکومت کے وقت افغانستان کے چیف جسٹس بھی رہے ہیں۔ انکی سیاسی بصیرت اور علمی شخصیت ہمیشہ تحریک طالبان کی رہنما رہی ہے۔
طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے دیگر ارکان میں انکی مرکزی قیادت یعنی ’رہبری شوریٰ‘ کے 13 ارکان شامل ہیں جوصرف گروپ کے سربراہ کو جوابدہ ہیں۔ اطلاعات کے مطابق طالبان ارکان پہلے ہی دوحہ پہنچ چکے ہیں جن میں ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں گذشتہ ہفتے پاکستان کا دورہ کرنے والی چھ رکنی ٹیم بھی شامل ہے۔
ابتدائی طور پر 10 مارچ کو انٹرا افغان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا لیکن قیدیوں کے تبادلے میں تاخیر اور غنی انتظامیہ کی جانب سے دیگر حیلے بہانوں کی وجہ سے پیش آںے والی رکاوٹوں کے باعث تاحال مذاکرات شروع نہیں ہو سکے۔
اور تاحال آسٹریلیا اور فرانس کے اعتراض کے نام پر بھی اشرف غنی نے 6 قیدیوں کی رہائی کو روک رکھا ہے، جس پر طالبان نے کہا ہے کہ ان کے تمام مطلوبہ رہنماؤں کی رہائی اور دوحہ پہنچنے تک مذاکرات شروع نہیں کیے جائیں گے۔
جبکہ دوسری طرف ابتدائی اطلاعات کے مطابق اشرف غنی کی مذاکراتی ٹیم تکنیکی مسائل کے سبب ہفتہ کے روز کابل سے روانہ نہیں ہو سکی تھی، اور اب توقع ہے کہ یہ ٹیم آج، بروز اتوار قطر پہنچ جائے گی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق افغان مفاہمتی عمل کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد بھی جمعہ کو دوحہ کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ جس کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ اب بالآخر بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہو جائے گا۔ ہفتہ کے روز امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’افغان رہنماؤں کو امن کے لیے اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ افغان عوام تشدد میں کمی اور ایک ایسی سیاسی تصفیے کے لیے تیار ہیں جس سے جنگ کا خاتمہ ہوگا۔