امریکی سپریم کورٹ کی جج جسٹس رتھ بدر گنسبرگ کی موت نے آئندہ امریکی انتخابات اور سیاست کو اہم موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔
خاتون جج کی تدفین سے بھی قبل نہ صرف دونوں صدارتی امیدوار بلکہ کانگریس ارکان اور عوام میں بھی نئے جج کی تعیناتی کو لے کر مختلف رائے کا اظہار کیا جا رہا ہے، ریپبلکن اسے بطورموقع دیکھ رہے ہیں اور فوری تعیناتی چاہتے ہیں، تو ڈیموکریٹ تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انتخابات میں باقی چند ہفتوں سے قبل تعیناتی کو طاقت کا استعمال قرار دے رہے ہیں۔
امریکہ میں سپریم کورٹ کا جج کیوں اہم ہے؟
امریکی سپریم کورٹ کا جج تاحیات قاضی کی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے، اور انہیں ہٹانا بھی نسبتاً ناممکن ہوتا ہے لہٰذا انکی نامزدگی یا تعیناتی انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ صدر ٹرمپ وہ پہلے صدر ہیں جنہیں چار سالوں کے دور حکومت میں سپریم کورٹ کے تیسرے جج کو نامزد کرنے کا موقع ملا ہے، اور اگر وہ تعیناتی میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ تعیناتی امریکی سیاست میں نئے رحجان اور فیصلوں کا موجب بنے گی۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ امریکی سیاست میں سپریم کورٹ اور اسکے جج انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، اکثر نظریاتی مسائل میں سپریم کورٹ کے فیصلے اس میں تعینات ججوں کی نظریاتی وابستگی کو ظاہر کرتے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب سپریم کورٹ میں لبرل ججوں کی تعداد نسبتاً زیادہ تھی تو صدر اوباما ہم جنس پرستی کے قانون کو منظور کروانے میں کامیاب رہے۔
اگرچہ صدر ٹرمپ کے نامزد کردہ دو ججوں کی تعیناتی کے باعث سپریم کورٹ میں لبروں کا زور ٹوٹ گیا ہے تاہم اگر یہ تیسری تعیناتی بھی ہو جاتی ہے تو سپریم کورٹ کے مرکزی پینل میں 4:1 کا واضح فرق آجائے گا، اور یہ امریکی سیاست کو صدر اوباما کے دیے لبرل رحجان سے ایک بار پھر روایت پسندی کی طرف لا سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ اس موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور انہوں نے ارکان سینٹ اور عوام سے اس پہ توجہ مبذول کرنے کی طرف زور دیا ہے۔ جبکہ اس کے ردعمل میں ڈیموکریٹ کے خیال میں صدر کو ایسا نہیں کرنا چاہیے اور نامزدگی کو اگلے صدر پر چھوڑنا چاہیے۔ یعنی نومبر میں صدارتی انتخابات کے بعد، اگلا منتخب صدر، سپریم کورٹ کی خالی جگہ پہ اگلی نامزدگی کرے۔
تکنیکی طور پر دیکھا جائے تو عمومی طور پر امریکہ میں سپریم کورٹ کے جج کی تعیناتی میں 70 روز کا وقت لگتا ہے، جس میں نامزدگی، سینٹ کمیٹی کے سامنے نامزد جج کی پیشی اور پھر سینٹ سے سادہ اکثریت کے ووٹ کے بعد جج تعینات ہو جاتا ہے۔ تاہم واضح رہے کہ فوت شدہ جج، جسٹس رتھ کی تعیناتی 1993 میں ریکارڈ 42 ایام میں ہوئی تھی، اور ابھی آئندہ انتخابات میں صدر ٹرمپ کے پاس تقریباً 50 دن ہیں، اور ان کے پاس نہ صرف سینٹ میں واضح اکثریت موجودہے بلکہ قائد ایوان مِچ میک کونل بھی عندیا دے چکے ہیں کہ وہ صدر کی نامزدگی پر فوری تعیناتی کا عمل شروع کر دیں گے۔
تاہم میڈیا رپورٹوں کے مطابق صدر کے کچھ ہم جماعت سینٹ ارکان ان سے ناراض ہیں اور وہ اگلے جج کی نامزدگی کو صدراتی انتخابات کے بعد پر چھوڑنے کا مشورہ دے رہے ہیں، ایسے میں صدر ٹرمپ تعیناتی کو کامیابی سے کر پاتے ہیں یا نہیں، یہ چند ہفتوں میں سامنے آجائے گا۔
تاہم یہ واضح ہے کہ اس سے امریکی سیاست میں نمایاں فرق آئے گا اور صدر ٹرمپ کو انتخابات اور اس کے بعد حکومت میں اس سے بھرپور فائدہ حاصل ہو گا۔