آرمینیا نے آزربائیجان کے سامنے گھٹنے ٹھیک دیے ہیں، ملکی قیادت نے بھی واضح اور باقائدہ شکست تسلیم کر لی ہے، تاہم آزربائیجان بھی کاراباخ کو مکمل طور پر آزاد کروانے میں ناکام رہا ہے اور روس کی مصالحت کے تحت امن معاہدے پر دونوں فریقین نے دستخط کر دیے ہیں۔ تاہم اس سب میں اہم چیز آرمینیائی قیادت کا شکست کو یوں تسلیم کرنا ہے کہ خطے میں اس کے دیرپااثرات دیکھنے کو ملیں گے۔
جنگ میں شکست کو تسلیم کرتے ہوئے آرمینیائی قیادت کا کہنا ہے کہ انکی فوج تھک چکی ہے، اور اسے بُری طرح سے کچلے جانے سے بچانے کے لیے آزربائیجان سے وقت مانگا گیا ہے اور روسی مصالحت میں معاہدے پر دستخط کر دیے گئے ہیں۔
معاہدہ سوموار کی شام ہوا، جس کے تحت آرمینیا آزربائیجان کے علاقے کاراباخ سے وقفے وقفے سے نکل جائے گا۔ کاراباخ کے آرمینی نمائندے آرایک ہارُت یونیان نے آج بروز منگل قومی ٹی وی سے خطاب میں نہ صرف امن معاہدے کا اعلان کیا بلکہ عسکری شکست کا اعتراف بھی کیا۔
تاہم آرمینی قیادت نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ آزربائیجان کے سامنے ہتھیار ڈالنے اور امن معاہدے سے کاراباخ کے مکمل نقصان کو بچا لیا گیا ہے، ہارُت یونیان کا کہنا ہے کہ اگر جنگ جاری رہتی تو چند ہی روز میں کاراباخ کو مکمل طور پر کھو دیتے، اور بہت زیادہ جانی نقصان بھی ہوتا۔
ہارُت یونیان کا مزید کہنا ہے کہ افواج کووڈ19 کے باعث بُری طرح پریشان تھیں، اور 40 روز سے جاری جنگ کے باعث بھی فوجی تھک چکے تھے۔ اس کے علاوہ آزربائیجان کو مہیا کردہ ترک ڈرون طیارے اور شامی گوریلا جہادی جنگ کا پاسہ بدلنے کا سبب بنے۔
آرمینیائی نمائندے کا مزید کہنا تھا کہ ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ شوشا کا اہم تذویراتی شہر کھو جانے کے بعد کیا گیا، اور دراصل ہفتے سے وہاں آزربائیجان کا قبضہ ہے، اس کے بعد علاقائی دارالحکومت کی طرف ہوتی پیش رفت پریشان کن تھی، اگر اسے نہ روکا جاتا تو صورتحال مکمل طور پر ہاتھ سے نکل سکتی تھی۔
روس کی مصالحت سے ہوئے معاہدے کے تحت کاراباخ کا کچھ علاقہ اور اسے آرمینیا سے جوڑنے والا رستہ آرمینیا کے ہاتھوں میں ہی رہیں گے، اور وہاں روسی اور ترک امن افواج دونوں فریقین کے مابین حائل رہیں گی۔
آرمینیا میں عوامی سطح پر حکومتی فیصلے کی سخت مخالفت کی جا رہی ہے، اور عوام ہتھیار ڈالنے کی سختی سے مخالفت کر رہی ہے۔ ترک میڈیا کے مطابق شہریوں نے پارلیمنٹ اور وزیراعظم کی رہائش پر پتھراؤ کیا ہے۔