چین مصنوعی ذہانت اور دیگر جدید ٹیکنالوجیوں میں امریکہ کو مات دے چکا ہے، مستقبل چین کا ہو گا۔ ان خیالات کا اظہار امریکی وزارت دفاع سے استعفیٰ دینے والے ایک اعلیٰ افسر نے کیا ہے۔ نیکولس چائیلان پینٹاگون میں شعبہ سافٹ ویئر کے سربراہ رہے ہیں اور انہوں نے حال ہی میں کسی نہ معلوم وجہ سے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا ہے
۔ معروف امریکی اخبار فنانشل ٹائمز کو دیے انٹرویو میں نیکولس کا کہنا تھا کہ جدید ٹیکنالوجیوں میں امریکہ کا چین کے ساتھ مقابلے کا کوئی امکان نہیں رہا، چین امریکہ سے کم از کم 15/20 برس آگے ہیں۔ میرے خیال میں تو دوڑ بہت پہلے ہی ہم ہار چکی ہے۔
وزارت سے استعفے کے بعد نیکولس کا یہ پہلا عوامی انٹرویو تھا، اہم عہدے پر فائز اہلکار کا یوں اچانک مستعفی ہوجانا پیہلے ہی امریکی حلقوں میں چہ مگوئیوں کا باعث بنا ہوا تھا جبکہ اب اس انٹرویو نے معاملات کو اور بھی حساس بنا دیا ہے۔
نیکولس خصوصی طور پر امریکی فضائیہ سے متعلق سافٹ ویئر بنانے کے شعبے میں کام کرتے رہے ہیں اور انکے مطابق انہوں نے استعفیٰ بھی سائبر سکیورٹی میں خاطر خواہ کام نہ ہونے اور وزارت میں موجود سست رویے کے باعث دیا ہے۔
انٹرویو میں نیکولس کا مزید کہنا تھا کہ چین کے ساتھ جنگ چاہے ایک مفروضہ لگے لیکن چین نے بلا شبہ مصنوعی ذہانت اور سائبر سکیورٹی میں واضح سبقت حاصل کرلی ہے۔ اس کے سہارے چین ہر شعبے میں آئندہ دنیا کی قیادت کرے گا، پھر چاہے وہ ذرائع ابلاغ میں سبقت کا بیانیہ ہو یا زمین پر طاقت کا مظاہرہ، چین جدید ٹیکنالوجی میں سبقت کی بناء پر امریکہ کو مات دے چکا ہے۔
نیکولس نے واضح طور پر کہا کہ بظاہر امریکہ چین کی نسبت دفاع پر 3 گناء زیادہ کرچ کرتا ہے لیکن حقیقتت میں اس کا زیادہ حصہ بدعنوانی اور ناقص پالیسیوں اور سمجھ کے باعث ضائع ہوتا ہے۔
فرانسیسی نژاد امریکی سائبر سکیورٹی ماہر کا کہنا تھا کہ اس وقت ایف 35 کی نسبت مصنوعی ذہانت میں سبقت امریکہ یا کسی بھی ملک کے لیے ناگزیر ہے۔ امریکہ ان منصوبوں پر اربوں ضائع کر رہا جو اب ماضی کا پارینہ بن چکی ہیں۔
نیکولس کے مطابق امریکہ میں مصنوعی ذہانت کو لے کر اخلاقیات کی بحث میں کسی حد تک چین کے ساتھ موازنہ کیا جا سکتا ہے کہ چین اس لحاظ سے اب بھی امریکہ کے ساتھ مقابلے میں ہے لیکن دوسری طرف چین کی توجہ مکمل طور پر ٹیکنالوجی کر ہر شعبہ زندگی میں بغیر کسی اخلاقی سوال کے ڈھالنے پر مرکوز ہے۔ چینی حکومت، چینی کمپنیاں اور جامعات پوری توجہ اس شعبے کو دیے ہوئے ہیں۔ جبکہ ان کے درمیان موجود شراکت داری منصوبوں کو انتہائی تیزی سے مکمل کرنے میں مدد فراہم کر رہی ہے۔ نیکولس کے مطابق دوسری طرف امریکی کمپنیاں مثلاً گوگل حکومت کے ساتھ مل کر مصنوعی ذہانت پر کام کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔
امریکی سائبر سکیورٹی کا مذاق اڑاتے ہوئے نیکولس کا کہنا تھا کہ اگر میں اس حوالے سے امریکہ کاموازنہ چین سے کروں تو یہ ایسے ہے جیسے پہلی جماعت کے طالب علم کا موازنہ دسویں جماعت سے کیا جائے۔
فنانشل ٹائمز کو دیے انٹرویو میں نیکولس کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ کچھ ہفتوں میں کانگریس کو امریکی کمزوریوں کے حوالے سے آگاہ کرنا چاہیں گے۔ انکا کہنا تھا کہ وہ جو کرنا چاہتے تھے انہیں کرنے نہیں دیا گیا اور نہ اس کے لیے رقم جاری کی گئی۔ وہ کسی ایسی جگہ کام کرنا نہیں چاہیں گے جہاں افکار وک عملی جامہ پہنانے کی تگ و دو نہ ہو اور صرف باتیں ہوں۔
امریکہ میں سائبر حملوں کی مثال دیتے ہوئے نیکولس کا کہنا تھا کہ اس سے عوام امریکی کمزوریوں کا اندازہ لگا سکتی ہے، جبکہ حساس شعبوں میں صورتحال اس سے بھی بدتر ہے اور اسکا ذمہ دار پینٹاگون کا عملہ اور کام کرنے کا نظام ہے۔/
انٹرویو میں نیکولس نے امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ 2011 سے امریکی خلاء باز روسی راکٹ کے ذریعے خلائی اسٹیشن کا سفر کر رہے ہین اور اب ہم اس انتظار میں ہیں کہ سپیس ایکس امریکہ کے لیے راکٹ بنائے اور امریکہ اس سے خدمات لے۔ امریکہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔