امارات اسلامیہ افغانستان ہمیشہ ہی امریکہ اور نیٹو افواج پر داعش کی مدد کا الزام لگاتی رہی ہے تاہم اب سابق افغان انتظامیہ کے بھگوڑے فوجی اور اعلیٰ اہلکاروں کے داعش میں شامل ہونے کی اطلاعات آرہی ہیں۔ امریکی اخبار وال سٹریٹ جنرل نے بھی اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ سابق فوجی اہلکار داعش میں شامل ہو کر حکومت کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ امریکہ نے افغانستان پر قبضے کے دوران مقامی فوج کی تیاری پر 88 ارب ڈالر خرچ کیے تھے، اور 3 لاکھ کی فوج کھڑی کی تھی، تاہم رواں سال کے وسط میں یہ فوج امریکیوں کے نکلتے ہی مرکز سے یوں غائب ہو گئی کہ جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ طالبان نے ملک میں امن کے لیے تمام افراد کے لیے عام معافی کا اعلان کیا اور قابض افواج کے انخلاء کے بعد مل کر ملک کے لیے کام کرنے کی دعوت دی۔ تاہم بشتر افراد نے پہلے پنجشیر میں قلعہ بند ہو کر حکومت کی عملداری کو للکارا اور جب وہاں بھی شکست ہوئی تو بظاہر لبرل اور ترقی پسند افراد اب داعش میں شامل ہو رہے ہیں۔
وال سٹریٹ جنرل کے مطابق داعش اس وقت افغانستان کا سب سے مالدار کالعدم گروہ ہے، اور یہی دولت سابق فوجی اہلکاروں کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔ خبر کے مطابق سابق اعلیٰ جاسوس اہلکار رحمت اللہ نبیل نے اخبار کے نمائندے سے گفتگو میں کہا ہے کہ ان کے پاس اب دوسرا کوئی چارہ نہیں ہے۔
واضح رہے کہ اخبار نے اپنی کم علمی اور جہالت میں داعش خراسان کا حوالہ دیتے ہوئے طالبان کو لسانی تحریک ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور لکھا ہے کہ طالبان پنجابی لسانی گروہ ہے۔ خبر میں طالبان کو شیعہ سمیت دیگر مذہبی گروہوں کے ساتھ نرم رویہ رکھنے پر بھی داعش کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ داعش کا دعویٰ ہے کہ امریکہ کے ساتھ معاہدہ کرکے طالبان نے اسلامی شریعت کے نفاذ سے ہاتھ کھینچ لیا، لہٰذا اب یہ ایک اسلامی تحریک نہیں رہی۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکی تربیت یافتہ اہلکاروں کے داعش میں شامل ہونے سے خطے کا امن بری طرح سے متاثر ہو سکتا ہے، کچھ کے خیال میں اگر اس میں کسی بھی طرح امریکی ہاتھ ہوا تو یہ کسی کے لیے بھی اچھا نہیں ہوگا، اور اس کا صرف ایک ہی مطلب ہو گا کہ امریکہ نے خطے میں اپنی 40 سالہ غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ انکے مطابق عراق اور شام پر امریکی حملوں نے مقامی فوج کو ایسے گروہوں میں شامل ہونے پر مجبور کردیا تھا جو بعد میں داعش کے قیام کا باعث بنا، اور اب بھی کچھ ایسی ہی غلطی یا سازش ہوتی نظر آرہی ہے۔
یاد رہے کہ امریکی محکمہ دفاع کے ایک اعلیٰ اہلکار کولن کاہل نے گزشتہ ماہ سینٹ کو افغان صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر داعش افغانستان میں مظبوط ہوئی تو یہ آئندہ 6 ماہ میں امریکہ اور اسکے مغربی اتحادیوں پر حملوں کے قابل ہو جائے گی۔
امریکی تحفظات اور تمام دیگر افواہوں کے برعکس امارات اسلامیہ افغانستان نے داعش کے خطرے کو بالکل مسترد کر دیا ہے، اعلیٰ طالبان قیادت کے مطابق انہیں داعش سے کوئی خطرہ نہیں، اور نہ وہ کسی سے داعش سے لڑنے کے خلاف مدد کے طلبگار ہیں، وہ اپنی حفاظت خود کر سکتے ہیں۔