فرانس میں کم عمر لڑکیوں/بچیوں میں جسم فروشی کے بڑھتے رحجان کو روکنے کے لیے حکومت نے نئی مہم شروع کی ہے۔
ایک نئی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق سیکولر یورپی ملک کے دارالحکومت میں کم از کم 10 ہزار بچیاں جسم فروشی کے دھندے میں ملوث ہیں۔ حکومت نے میڈیا مہم اور اصلاحی منصوبے کے لیے 1 کروڑ 40 لاکھ یورو کی رقم مختص کی ہے، جس میں کم عمر لڑکیوں اور انکی دلالی کرنے والوں کو آگاہی فراہم کی جائے گی کہ ان کے اس کام سے بچیوں پر انفرادی اور سماجی سطح پر کیا نقصانات ہوتے ہیں۔
مہم کا انتظام وزارت برائے قومی ہم آہنگی اور شعبہ صحت کو دیا گیا ہے۔ اس موقع پر اعلیٰ عہدے داروں کا کہنا تھا کہ مسئلے کی سنگین صورتحال کے باعث اب اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مہم کے تحت دھندے میں ملوث بچیوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا جائے گا اور انکی دلالی کرنے والے افراد کو بھی معاملے کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے گا۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق فرانس میں بچیوں کے جسم فروشی میں ملوث ہونے کی تعداد میں پچھلے 5 برسوں میں 70٪ اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں بچیوں کے سماجی میڈیا کے زیر اثر خاص رہن سہن کی خواہش اور اس کے تحت فوری پیسے کی ضرورت کو زمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ رپورٹ کی تفصیل کے مطابق گورکھ دھندے میں 14-17 سال کی کم عمر بچیوں کی تعداد نمایاں ہے جبکہ اس سے کم عمر بچیاں بھی شمار کی گئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق متاثرہ بچیاں معاملے کی سنگینی سے ناواقف ہیں اور ان کے مطابق یہ انکے لیے مالی خودمختاری کے مترادف ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق جی رہی ہیں اور انکی اپنی ایک آزاد پہچان ہے۔
معاملے پر رائے دہی کرتے ہوئے فرانس کے حکومتی وکیل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کم عمر میں جسم فروشی ایک رحجان بن گیا ہے، بچیوں میں یہ سوچ پیدا کر دی گئی ہے کہ یہ پیسہ کمانے کا آسان اور بہترین طریقہ ہے، جس سے وہ اپنی من پسند زندگی گزار سکتی ہیں۔ حکومتی نمائندے کے مطابق بچیوں میں احساس پیدا کیا جائے گا کہ اس کے انکے جسم، نفسیات اور زندگی پر کیا اثرات ہوں گے۔
رپورٹ کے مطابق آن لائن یومیہ اجرت پر کمرے کی دستیابی کے وسیع کاروبار بھی اس دھندے میں بہت معاون ثابت ہوئے ہیں۔