جنوبی کوریا نے ملک میں کتے کھانے اور بیچنے پر پابندی عائد کرنے کا عندیا دیا ہے۔ صدیوں پرانے اس مقروہ عمل پر پابندی لگانے کے لیے حکومتی جماعت اور حزب اختلاف میں بھی اتفاق رائے قائم ہو گیا ہے اور میڈیا کے مطابق جلد اس حوالے سے اہم پیش رفت ہو سکتی ہے۔
واضح رہے کہ جنوبی کوریا میں کتے کھانے کی باقائدہ کوئی قانونی اجازت تو موجود نہیں البتہ اس پر پابندی بھی نہیں ہے۔ مشرق بعید کے ملک میں کتے یا دیگر ایسے حیوانات کھانے کا رواج صدیوں پرانا ہے اگرچہ اس پر مقامی و عالمی سطح پر ہمیشہ کراہت کا اظہار سامنے آتا رہا ہے۔
حکومتی جماعت کی اہم رکن پارک ڈائی چُل نے اس حوالے سے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ جنوبی کوریا میں ۱ کروڑ سے زائد گھروں میں پالتو جانور موجود ہیں، اور مقامی لوگ بھی کتوں کا گوشت کھانے کے حوالے سے بیزاری کا اظہار کرتے رہتے ہیں، لہٰذا حکومت نے پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
قانون کو کِم کیون ہیز کا نام دیا گیا ہے، جو اس خاتون کے نام پر ہے جو عرصہ دراز سے اس حوالے سے مہم چلا رہی ہے۔ حکومتی جماعت کے بہت سے ارکان اس حوالے سے عرصہ دراز سے بات کرتے رہے ہیں البتہ ممکنہ مقامی ردعمل پر اب تک کھل کر بات نہیں کی گئی۔ البتہ سماجی مہم کے بعد صدیوں پرانی اس روایت میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی کوریا میں کتے کا گوشت بیچنے والے فارموں کی تعداد آدھی رہ گئی ہے تاہم اب بھی سالانہ تقریباً دس لاکھ کتے کھائے جاتے ہیں۔
اس سے قبل حکومت کی کتوں کے گوشت پر پابندی کی کوشش ناکام رہی تھی کیونکہ ریسٹورنٹوں اور فارموں کے مالکان کے مطابق اس سے ان کا دھندا ایک دم بند ہو جائے گا۔ جس کے بعد حکومت نے انہیں کچھ وقت دینے اور شہریوں کی آگاہی کے لیے مہم تیز کرنے کا اعلان کیا تھا۔