امریکہ نے ایرانی جوہری ڈیل سے مکمل علیحدگی اختیار کر لی ہے جبکہ ڈیل کے مغربی فریقوں نے امریکی فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
ایران کے ساتھ ہونے والی جوہری ڈیل سے دستبرداری کا فیصلہ موجودہ امریکی صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے ایک برس بعد کیا تھا۔ طویل مذاکراتی سلسلے کے بعد سن 2015 میں مکمل ہونے اس ڈیل پر پر دستخط کرنے والے ممالک میں امریکہ کے علاوہ فرانس، برطانیہ، روس، چین اور جرمنی شامل تھے۔ اس مذاکراتی سلسلے میں یورپی یونین بھی شریک رہی تھی۔ امریکی علیحدگی کے بعد سے ڈیل پر دستخط کرنے والے بقیہ ممالک ابھی تک ڈیل کو برقرار رکھنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس ڈیل کے تحت ایران کو جوہری پروگرام کو محدود کرنے کی شرط پر اقتصادی مراعات دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس سمجھوتے کا بنیادی مقصد ایران کو جوہری ہتھیار سازی سے روکنا بھی تھا۔ دوسری جانب ایران کا مسلسل موقف رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن ہے اور جوہری بم بنانا اس کا مقصد نہیں ہے۔
سن 2018 میں ڈیل سے امریکی علیحدگی کے بعد سے ایران کو ٹرمپ حکومت کی جانب سے انتہائی سخت معاشی پابندیوں کا سامنا ہے اور ان معاشی پابندیوں سے اب ایرانی اقتصادی حالت بہت زیادہ کمزور ہو چکی ہے۔ ان حالات میں بھی تہران حکومت کی کوشش ہے کہ کسی طرح وہ امریکی پابندیوں کے دباؤ تلے اقتصادی سرگرمیاں جاری رکھ سکے۔
رواں ہفتے کے دوران بدھ ستائیس مئی کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ ایرانی جوہری ڈیل کی قابل استعمال شقوں کے تحت استثنیٰ کی حامل چار میں سے تین شقوں کو منسوخ کرتے ہیں۔ ایک شق جس کو استثنیٰ دیا گیا ہے، اس کا تعلق سول جوہری تعاون سے ہے۔ اس کے تحت روس، چین اور یورپی کمپنیاں ایران کے ساتھ کسی بھی امریکی تادیبی کارروائی کے بغیر کام کر سکتی ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ پومپیو کے بیان کے جواب میں جرمنی، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے ایک مشترکہ بیان جاری ہوا ہے جس میں تین شقوں کی منسوخی کے امریکی فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے افسوس ظاہر کیا گیا ہے۔ مشترکہ بیان میں واضح کیا گیا کہ ایران کو استثنیٰ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی منظور شدہ قرارداد نمبر 2231 کے تحت حاصل تھا۔ اس قرارداد کا تعلق بین الاقوامی برادری کے جوہری عدم پھیلاؤ کے ساتھ وابستہ مفادات کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اس میں ایران بھی شامل ہے جو اپنے جوہری پروگرام کے محفوظ اور پرامن مقاصد کی ضمانت دیتا ہے۔ روس، چین اور یورپی ممالک مغربی ایران کے صنعتی شہر اراک میں واقع بھاری پانی تیار کرنے کے جوہری مرکز میں مقامی سائنسدانوں کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔