بیرونی ایماء اور ہندتوا نظریے پر مبنی تفریقی سیاست کے نتیجے میں بھارت خطے کا امن تو برباد کر ہی چکا ہے پر اب صورتحال کو سنبھالنے سے قاصر بھی ہو چکا ہے۔ جن طاقتوں کی شہہ پر مودی نے چین اور پاکستان سے معاملات بگاڑے اب وہ شدید اندرونی مسائل کا شکار ہیں اور بھارت کو اکیلا چھوڑتی نظر آرہی ہیں۔ ایسے حالات میں مودی کے اوسان خطا ہو جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
آج مورخہ 31 مئی کو مودی سرکار نے نئی دہلی میں پاکستانی سفارتی عملے کے دو ارکان پر مبینہ جاسوسی کا الزام لگا کر انہیں پہلے حراست میں لیا اور پھر سفارتی بندشوں اور ہاکستانی مزاحمت کے پیش نظر ناپسندیدہ شخصیات قرار دے کر دونوں سفارتکاروں کو 24 گھنٹوں میں ملک سے نکل جانے کا حکم دیے ڈالا۔ اپنے سرکاری بیان میں بھارتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستانی سفارتکاروں کی سرگرمیاں سفارتی آداب کے خلاف تھیں۔
بھارتی میڈیا کی روائیتی من گھڑت قصہ گوئی کے مطابق بھارتی جاسوسی ادارے گزشتہ چند ماہ سے تین پاکستانی سفارتی اہلکاروں کا پیچھا کر رہی تھیں، اور بروز اتوار سفارتی عملے کو بھارتی فوج سے متعلق خفیہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے پکڑا گیا۔ جس پر پہلے تو پاکستانی سفارتکاروں نے بھارتی شہری ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر بعد میں اعتراف کر لیا کہ وہ آئی ایس آئی کے جاسوس ہیں۔ بھارتی میڈیا کہانی میں حقیقت کا احساس پیدا کرنے کے لیے کہا ہے کہ اس سارے کام کے لیے پاکستان نے ایک بھارتی شخص کی خدمات حاصل کر رکھیں تھیں، جس سے نقد رقم اور فون برآمد کر لیا گیا ہے۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ نے انڈیا کے اقدام کی مذمت کی ہے اور اپنے بیان میں کہا ہے کہ سفارتی عملے کے دو اراکین کو جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا تھا اور نئی دلی میں پاکستانی سفارتخانے کی مداخلت کے بعد انھیں رہا کیا گیا۔
پاکستان نے بھارتی الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ انڈیا کی جانب سے یہ اقدام میڈیا کے ذریعے چلائی گئی سوچی سمجھی مہم کا حصہ ہے، جس کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ دہلی میں پاکستانی سفارتی عملہ واضح طور پر بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے اور سفارتی قواعد کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کرتا ہے، انڈیا کا اس حرکت کے پیچھے مقصد پاکستانی سفارتخانے کے کام کو محدود کرنے کی کوشش ہے۔
سن 2016 میں بھی دونوں ممالک نے جاسوسی کے الزام میں سفارتی عملے کو ’ناپسندیدہ‘ قرار دیتے ہوئے وطن چھوڑنے کا کہا تھا۔ اس وقت پاکستان میں انڈین سفارتی عملے کے آٹھ جبکہ انڈیا میں پاکستانی عملے کے چھ ارکان ناپسندیدہ قرار دیے گئے تھے۔