امریکا میں سفید فام پولیس افسر کے ہاتھوں سیاہ فام شہری کے قتل کے خلاف شروع ہونے والے ہنگامے شدت اختیار کر گئے ہیں۔ شدت کا یہ عالم ہے کہ مظاہرین نے جمعے کی شب وائٹ ہاؤس پر ہلہ بول دیا۔
اگرچہ وائٹ ہاؤس پر یہ تاریخ کا پہلا حملہ نہیں ہے اور اس سے قبل 1812 میں شروع ہونے والی برطانیہ امریکہ جنگ کے دوران 24 آگست 1814 میں بھی برطانوی فوجیوں نے نہ صرف وائٹ ہاؤس پر حملہ کیا تھا بلکہ اسے آگ بھی لگا دی تھی۔ برطانوی حملے کے دوران اس وقت کے امریکی صدر جیمز میڈسن نے اہل خانہ سمیت بھاگ کر جان بچائی تھی۔ اور اس کے بعد بھی تاریخ میں اب تک یہ گیارواں واقع ہے کہ جب انفرادی یا گروہی سطح پر امریکی صدارتی محل پرحملہ کیا گیا ہو۔
حالیہ حملے کے آثار واقع سے دو دن قبل تب ہی نظر آرہے تھے جب صدر ٹرمپ نے مظاہرین کو وائٹ ہاؤس کے انتہائی قریب آتا دیکھ کر ممکنہ طور پر خفیہ اداروں کی رپورٹوں کے تحت تنبیہ کی تھی کہ مظاہرین قانون کو ہاتھ میں لینے سے اجتناب کریں وگرنہ ان کے ساتھ آڑے ہاتھوں نمٹا جائے گا۔ اس وقت بھی مظاہرین اور مقامی پولیس میں شدید چھڑپیں ہوئی تھیں۔
تاہم امریکہ کے لبرل میڈیا نے حملے کا الزام قدامت پسند نظریات کے حامل صدر ٹرمپ پر ہی دھر دیا ہے اور کہا ہے کہ جب صدر مظاہرین کو خونخوار کتوں اور اسلحے سے لیس کمانڈروں سے ڈرائیں گے تو مظاہرین ضرور مشتعل ہوں گے۔ مختلف امریکی ابلاغی اداروں کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے صدر کے بیان کو للکارسمجھا اور وائٹ ہاؤس کے احاطے میں داخل ہونے کی کوششیں تیز کردیں۔ یعنی مظاہرین کو دو دن تک شدید اشتعال دلانے میں لبرل میڈیا کا ہاتھ واضح نظر آرہا ہے۔
تاہم بظاہر یوں لگتا ہے کہ وائٹ ہاؤس پر حملے کے باوجود عوام پر سخت ہاتھ استعمال کرنے کے بجائے امریکی صدر کا حفاظتی عملہ صدر ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس کے زیرِ زمین حفاظتی بنکر میں لے گیا اور کسی بھی قسم کے ناخوشگوار واقع سے اجتناب کیا گیا۔ وائٹ ہاؤس کے تہہ خانے میں بنا یہ خاص بنکر جنگ یا ایٹمی حملے کے دوران پناہ کے لیے مخصوص ہے۔
واضح رہے کہ اب تک امریکی دارالحکومت واشنگٹن سمیت، کم از کم 75 امریکی شہر ہنگاموں اور احتجاج کی زد میں آچکے ہیں جبکہ ان مظاہروں کی شدت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ مظاہرے بظاہر سیاہ فام امریکی شہری کے لیے انصاف کی غرض سے شروع ہوئے پر اندروں خانہ یہ حزب اختلاف کی جماعت ڈیموکریٹ پارٹی اور لبرل میڈیا کے زیر قیادت اگلے عام انتخابات کی مہم کا حصہ ہیں۔