امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایغوراقلیت کے حقوق کی خلاف ورزیوں کی پاداش میں چینی حکام پر پابندیاں عاید کرنے والے ایک قانون پر دستخط کردیئے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے جاری کردہ اعلان میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون چین میں ایغور اور دیگر اقلیتوں کی نسلی شناخت مٹانے اور ان کے مذہبی اعتقادات کے خاتمے کے لیے انسانی حقوق کی پامالیوں، مجرمانہ کیمپوں کا منظم استعمال ،قید با مشقت اور دیگر جرائم میں ملوث اہلکاروں کے خلاف منظورکیا گیا ہے ۔ یاد رہے کہ 20 مئی کو امریکی پارلیمنٹیرینز نے سنکیانگ میں مسلم ایغور اقلیت کو دبانے کے الزام میں چین پر “انسانیت کے خلاف جرائم” کا الزام عاید کرتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ سے بیجنگ پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

دوسری جانب چین کا الزام ہے کی ملک کے شمال مغربی حصے میں اویغور نسل کے مسلمان علاحدگی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ چین نے ان پر دستی ہتھیاروں اور دھماکہ خیز مواد سے حملے کرنے جیسے الزامات بھی لگائے ہیں۔
جبکہ امریکہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے چینی حکام پر سنکیانگ میں “بحالی کیمپوں” میں اس اقلیت کے کم سے کم 10 لاکھ افراد کو حراست میں لینے کا الزام عاید کرتے ہوئے کہا ہے کہ چینی حکام اویغور اور ترکی بولنے والے مسلمانوں کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔

تاہم بیجنگ نے اس تعداد کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کیمپوں میں لاوارث بچوں کو رکھا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں مذہبی انتہا پسندی کی طرف رجحان سے دور رکھنےمیں مدد دینے کے لیے “پیشہ ورانہ تربیتی ” عمل سے گذارنے کا دعویٰ کیا ہے۔
دسمبر 2019 میں امریکی ایوان نمائندگان نے چین کے خلاف پابندیوں کا مطالبہ کرنے کے لیے بل منظور کیا تھا۔ اس بل کی منظوری کے بعد بیجنگ میں “گہرے عدم اطمینان” کا اظہار کرتے ہوئے اسے چین کے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیا گیا تھا۔