دنیا کی تقریباً 100 بڑی کمپنیوں کے گٹھ جوڑ نے فیس بک کے مالک مارک زکر برگ کو جھکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب فیس بک بھی ٹویٹر کی طرح مغربی خصوصی امریکی لبرل طبقے کا مکمل حمایتی اور انکے مفادات کا پاسدار بن کر رہے گیا۔
نظریاتی آزادی، آزادی اظہار، آزاد مارکیٹ اور سیاسی دباؤ کے بغیر کاروبار کے لبرل افکار ایک بار پھر ڈھگوسلہ ثابت ہوئے ہیں اور یونی لیور، کوکاکولا، بن اینڈ جیڑی اور لپٹن چائے سمیت دنیا کی تقریباً سو بڑی کمپنیوں کے گٹھ جوڑ نے مارک زکر برگ کو ٹویٹر کی طرح لبرل طبقے سے متضاد مواد کی متعصب نشاندہی اور انتباہی پیغام چسپاں کرنے کی پالیسی کو اپنانے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس سے قبل شدید دباؤ کے باوجود فیس بک نے ایسے کسی اقدام کی تردید کی تھی اور اسے صارفین کے اظہار رائے کی آزادی کی پالیسی سے متضاد قرار دیا تھا۔
تاہم دنیا کی 100 بڑی کمپنیوں کے فیس بک کے خلاف گٹھ جوڑ سے کمپنی کو اشتہارات کی مد میں ایک دن میں سوا 11 کھرب روپے کا نقصان ہوا ہے اور مارک زکر برگ دنیا کے تیسرے امیر ترین آدمی سے چوتھے نمبر پر آگئے ہیں۔ اتنے بڑے دھچکے کے بعد فیس بک نے مالی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسی کو فوری بدل دیا ہے، اور اب امریکی لبرل طبقے کے خلاف شائع ہونے والے مواد پر انتباہی نشان چسپاں کرنے کی پالیسی کو اپنا لیا ہے۔
مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق کمپنیوں نے فیس بک کے اقدامات کو ناکافی کہتے ہوئے مزید کا مطالبہ کیا ہے۔
معاملے کا پس منظر امریکہ میں آئندہ انتخابات اور اس کے لیے تیز ہوتی انتخابی مہم ہے۔ جس میں ڈیموکریٹ پارٹی اور اس کے حامی، خصوصاً بڑی کمپنیاں صدر ٹرمپ کے خلاف نسلی تعصب کی شبیہ پروان چڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں تاکہ انتخابات میں فائدہ اٹھا سکیں، صدر ٹرمپ قدامت پرست نظریات کے حامل سیاسی شخصیت ہیں جنہیں امریکہ کے غیر مرکزی شہروں اور مقامی کاروباروں کی بھرپور حمایت حاصل ہے تاہم نام نہاد لبرل طبقہ وائٹ ہاؤس پر حملے کے بعد اب مزید بھونڈی ہتھکنڈوں پر اترتے ہوئے ان کے حامی بڑے کاروباری طبقے کو بھی قومی انتخابات کی دور میں شامل کر چکا ہے۔ اس کشمکش میں جیت کس کی ہوگی، اس کا فیصلہ آئندہ انتخابات کے نتائج ہی عیاں کریں گے۔