روسی قوانین میں اصلاحات متعارف کرانے کے لیے ریفرنڈم کا عمل بدھ یکم جولائی کو مکمل ہو گیا۔ ریفرنڈم کا سلسلہ سات دنوں پر پھیلا ہوا تھا۔ نتائج کے مطابق لوگوں نے انتہائی بڑی اکثریت کے ساتھ اصلاحات کی منظوری دی ہے۔ خیال رہے کہ دستوری اصلاحات کے منظور ہونے سے اب ولادی میر پوٹن کے اپنے منصب پر فائز رہنے کی راہ سن 2036 تک ہموار ہو گئی ہے۔
روسی الیکشن کمیشن کے مطابق اٹھہتر فیصد سے زائد ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی مکمل ہو چکی ہے اور بھاری اکثریت میں لوگوں نے دستوری ترامیم کی منظوری دی ہے۔ ریفرنڈم میں پیش کردہ آئینی ترامیم کی مخالفت میں اکیس فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ ریفرنڈم کا ٹرن آؤٹ پینسٹھ فیصد رہا۔ روسی پارلیمنٹ دستوری اصلاحات کے پیکج کی باضابطہ منظوری پہلے ہی دے چکا ہے۔
دستوری ریفرنڈم کی کامیابی روس کی کامیابی کومنقسم اپوزیشن نے یہ کہہ کر مستردکر دیا ہے کہ ووٹنگ کے عمل میں کئی بے ضابطگیاں واضح طور پر دیکھی گئی ہیں۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ روسی اپوزیشن پوٹن کے سخت طرز حکومت میں کسی حد تک پِس کر رہ گئی ہے اور ریاستی میڈیا تک اس کی رسائی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن لوگوں کو ووٹ نہ ڈالنے اور بائیکاٹ کرنے کے حوالے سے بھی کسی ایک نکتے پر جمع کرنے سے قاصر رہی۔ ماسکو کے وسطی حصے میں واقع پُشکِن اسکوائر میں جمعرات دو جولائی کو ریفرنڈم کے خلاف لوگوں کی معمولی تعداد ضرور جمع ہوئی لیکن کوئی بڑا تاثر سامنے نہیں آیا۔ روسی اپوزیشن کے ایک نمایاں لیڈر الیکسی ناوالنی نے بھی ریفرنڈم کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ پوٹن تاحیات صدر رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ ریفرنڈم کا انعقاد بائیس اپریل کو ہونا تھا لیکن کووڈ انیس کی وجہ سے اسے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ اس ریفرنڈم کے لیے سات روز مخصوص کرنے کی سب سے بڑی وجہ عوام الناس کا سہولت کے ساتھ اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنا تھا۔
ریفرنڈم میں پوچھے گئے ایک سوال کے تحت لوگوں کو مثبت یا منفی جواب دینا تھا کہ صدر پوٹن اپنی موجودہ مدت صدارت کے ختم ہونے کے بعد بھی الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں۔ پوٹن کی موجودہ مدتِ صدارت سن 2024 میں ختم ہو رہی ہے۔ دستوری اصلاحات کی منظوری سے پوٹن کے اقتدار کو سن 2036 تک طول مل گیا ہے یعنی اگلے دو صدارتی الیکشن میں بطور امیدوار حصہ لے سکیں گے۔
آئینی ریفرنڈم میں ایک ریٹائرڈ شخص کے لیے کم از کم پینشن مقرر کرنے کی بھی منظوری دی گئی ہے۔ اس رفرنڈم کی منظوری سے روس میں ہم جنس پسندوں کے درمیان شادیوں کو بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دستور میں ‘ایک خدا‘ پر ایمان کو ملکی اقدار کا مرکزہ قرار دیا گیا ہے اور یہ بھی دستور میں شامل کر دیا گیا کہ ملکی دستور بین الاقوامی اقدار پر فضیلت رکھے گا۔
صدر ولادی میر پوٹن کے مطابق دستوری اصلاحات ملک کے مفاد میں ہیں۔