Shadow
سرخیاں
پولینڈ: یوکرینی گندم کی درآمد پر کسانوں کا احتجاج، سرحد بند کر دیخود کشی کے لیے آن لائن سہولت، بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث، صرف برطانیہ میں 130 افراد کی موت، چشم کشا انکشافاتپوپ فرانسس کی یک صنف سماج کے نظریہ پر سخت تنقید، دور جدید کا بدترین نظریہ قرار دے دیاصدر ایردوعان کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رنگ برنگے بینروں پر اعتراض، ہم جنس پرستی سے مشابہہ قرار دے دیا، معاملہ سیکرٹری جنرل کے سامنے اٹھانے کا عندیامغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے، یہ ان کے خود کے لیے بھی خطرناک ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئےیورپی کمیشن صدر نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر جوہری حملے کا ذمہ دار روس کو قرار دے دیااگر خطے میں کوئی بھی ملک جوہری قوت بنتا ہے تو سعودیہ بھی مجبور ہو گا کہ جوہری ہتھیار حاصل کرے: محمد بن سلمان

پچیس سال قبل بوسنیا میں کیا ہوا؟

جولائی 1995، یعنی 25 سال قبل سرب فوجیوں نے بوسنیا ہرزیگووینا میں سربرینیکا قصبے پر قبضہ کر لیا۔

دو ہفتے سے بھی کم عرصے میں ان کی افواج نے منظم انداز میں 8000 سے زائد بوسنیائی مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ جسے دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ میں بدترین اجتماعی قتل و غارت کہا جاتا ہے۔

سرب فوج کا کمانڈر راتکو ملادچ جسےبوسنیا کا قصاب بھی کہا جاتا ہے، کے فوجی مسلمانوں کے قتلِ عام میں مصروف تھے جبکہ وہ خود خوفزدہ بوسنیائی مسلمانوں کو بے خوف رہنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ قتل عام کا یہ منظم سلسلہ 10 دنوں تک جاری رہا۔ جس میں اقوام متحدہ سمیت متعدد یورپی لبرل ممالک بعد میں باضابطہ منظم مجرم بھی ٹھہرائے گئے۔

بوسنیا میں مغربی ممالک کا کردار اتنا بھیانک تھا کہ اقوامِ متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے ایک موقع پر کہا کہ سربرینیکا کا سانحہ اقوامِ متحدہ کی تاریخ کے لیے ایک بھیانک خواب بنا رہے گا۔

سربینیکا کا قتلِ عام بوسنیائی جنگ کے دوران سرب فوجیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی نسل کشی کا ایک حصہ تھا، نسل کشی اس سے کئی گنا بڑی تھی۔ بوسنیائی جنگ سنہ 1990 کی دہائی میں یوگوسلاویہ کے بکھرنے کے دوران ہونے والے کئی مسلح تنازعات میں سے ایک تھی۔

اس وقت سوشلسٹ ریپبلک آف بوسنیا اینڈ ہرزیگووینا کہلانے والی یہ ریاست یوگوسلاویہ کا حصہ تھی اور یہاں کئی اقوام آباد تھیں جن میں بوسنیائی مسلمان، قدامت پسند سرب اور کیتھولک کروش افراد شامل تھے۔

بعد میں بوسنیا ہرزیگووینا نے سنہ 1992 میں ایک ریفرینڈم کے ذریعے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا اور اسے کچھ ہی عرصے بعد امریکی اور یورپی حکومتوں نے اسے بطور ریاست تسلیم بھی کیا۔ تاہم تحفظ کے وقت سب نے مجرمانہ غفلت یا جرم میں سربیا کا ساتھ دیا۔

بوسنیا کے ریفرنڈم میں مقامی سرب آبادی نے شمولیت اختیار نہ کی تاہم ملک کی آزادی کے بعد سربیا کا ساتھ دیا اور حملے کی راہ ہموار کی۔ جلد ہی سربیا نے نئے تخلیق شدہ ملک پر حملہ کر دیا۔ اور علاقے سے بوسنیائی مسلمانوں کو نکالنا شروع کر دیا، جس کا مقصد ’عظیم تر سربیا‘ بنانا تھا۔

سرب فوجی 1992 میں سربرینیکا پر قبضہ کر لیا مگر فوراً ہی اسے بوسنیائی فوج نے دوبارہ حاصل کر لیا۔ فریقوں کے درمیان جھڑپوں کے ساتھ شہر محاصرے میں چلا گیا۔ اپریل 1993 میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس علاقے کو ’کسی بھی مسلح حملے یا کسی دیگر دشمنانہ کارروائی سے محفوظ علاقہ‘ قرار دے دیا۔ جس کی کا فائدہ بھی سرب فوج کوہوا۔

چھ جولائی سنہ 1995 کو سرب فوج نے سریبرینیکا پر شدومد کے ساتھ حملہ کیا۔ اقوام متحدہ کی افواج نے ہتھیار ڈال دیے یا پھر شہر سے پیچھے ہٹ گئے اور جب نیٹو کی افواج کو فضائی حملے کے لیے بلایا گیا تو اس نے بھی سرب فورسز کی پیش رفت کو روکنے میں کوئی مدد نہیں کی۔

یہ انکلیو پانچ دنوں میں ہی ان کے قبضے میں آ گیا۔ جنرل ملادچ دوسرے جرنیلوں کے ساتھ شہر میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے اور گشت کیا۔ تقریبا 20 ہزار مہاجرین اقوام متحدہ کے مرکزی ڈچ کیمپ کی جانب فرار ہوگئے۔

اس کے دوسرے دن ہی قتل و غارت گری کا آغاز ہو گیا۔ جب مسلمان پناہ گزینوں نے شہر چھوڑنے کے لیے بسوں پر سوار ہوئے تو سرب فوجیوں نے مردوں اور لڑکوں کو بھیڑ سے علیحدہ کیا اور انھیں وہاں سے دور لے گئے تاکہ انھیں گولی مار کر ہلاک کر دیں۔

ہزاروں افراد کو پھانسی دے دی گئی اور پھر بلڈوزروں کے ذریعہ ان کی لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دھکیل دیا گیا۔ مقامی افراد کہتے ہیں کہ بعض افراد کو تو زندہ ہی دفن کر دیا گیا تھا جبکہ کچھ بڑے بوڑھوں کو اپنے بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے مارے جاتے ہوئے دیکھنا پڑا تھا۔

اس دوران خواتین اور لڑکیوں کو نقل مکانی کرنے والوں کی قطار سے نکال کر لے جایا گیا اور ان کا ریپ کیا گیا۔ شاہدین کا کہنا ہے کہ سڑکیں لاشوں سے پٹی پڑی تھیں۔

کم سازوسامان والے ڈچ فوجی سرب فوجیوں کی جارحیت دیکھتے رہے اور انھوں نے کچھ نہیں کیا یہاں تک کہ ان کے کیمپ میں پناہ گزین پانچ ہزار مسلمانوں کو ان کے حوالے کر دیا گیا۔

دی ہیگ میں واقعات کی تفتیش کرنے والے اقوام متحدہ کے ایک ٹریبونل نے بعد میں اس قتل و غارت گری میں ڈھیر ساری منصوبہ بندی کا اعتراف کیا ہے۔

ایک سرب کے ایک کمانڈر کے خلاف فیصلے میں کہا گیا کہ ‘تمام جوان مسلمان مردوں کو گرفتار کرنے کے لیے منظم متحدہ کوشش کی گئی تھی۔’ خواتین اور بچوں کو لے جانے والی بسوں میں باقاعدگی سے مردوں کی تلاشی کی گئی اور تلاش کرنے والے فوجی اکثر ایسے جوان لڑکوں اور بوڑھے مرد کو بھی لے جاتے تھے جو بظاہر لڑنے کے اہل نہیں ہوسکتے تھے۔

اس موقع پر پاکستان، ترکی، سعودی عرب اور دیگر مسلمان ممالک کی مداخلت پر معاملات کو کسی حد تک سنبھالا گیا ورنہ بوسنیائی مسلمانوں کی آج نسل ختم ہو چکی ہوتی۔

اس قتل عام کے اثرات آج بھی ارتعاش پیدا کرتے ہیں۔ نسل کشی کے 25 سال بعد آج بھی متاثرین کی لاشیں اور اجتماعی قبریں ملتی ہیں۔

سنہ 2002 کی ایک رپورٹ میں نیدرلینڈز کی حکومت اور فوجی عہدیداروں پر ان ہلاکتوں کو روکنے میں ناکامی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے پیش نظر پوری حکومت نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ سنہ 2019 میں ملک کی عدالت عظمی نے اس فیصلے کو برقرار رکھا جس میں نیدرلینڈ کو سریبرینیکا میں 350 افراد کی اموات کے لیے جزوی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔

سنہ 2017 میں ہیگ میں اقوام متحدہ کے ایک ٹربیونل نے ملادچ کو نسل کشی اور دیگر مظالم کا مرتکب قرار دیا۔ کمانڈر ملادچ سنہ 1995 میں جنگ کے خاتمے کے بعد روپوش ہوگئے تھے اور سنہ 2011 میں شمالی سربیا میں اپنے کزن کے گھر میں ملنے سے پہلے کہیں نظر نہیں آئے تھے۔

سربیا نے جنگ کے خاتمے کے بعد وہاں رونما ہونے والے جرائم پر معذرت کر لی ہے لیکن پھر بھی اس نے اسے نسل کشی ماننے سے انکار کیا ہے۔

دوست و احباب کو تجویز کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

13 − five =

Contact Us