ہمارے قومی افق پر فرقہ واریت کے بادل ایک بار پھر منڈلانے لگے ہیں۔ خدا خیر کرے!
فرقہ واریت کی اساس، مذہب اور سیاست کا غیر فطری ملن ہے۔ تاریخ گواہ ہے اورعصرِ حاضر بھی۔ مسلم تاریخ میں فرقہ واریت کا پہلا ظہور اُس وقت ہوا جب ایک سیاسی واقعہ کی مذہبی تعبیر کی گئی۔ آج بھی اگر پاکستانی معاشرہ مشرقِ وسطیٰ میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں سے لاتعلق ہو جائے تو ہم اس ماضی کی طرف لوٹ سکتے ہیں جس کا یہاں حسرت کے ساتھ ذکر ہوتا ہے۔ مذہب اور سیاست کا ایک ملن فطری ہے۔ اس سے صرفِ نظر بھی تباہ کن ہے۔ مذہب انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو پاکیزہ بناتا ہے۔ اس کو صبح شام تذکیر کرتا ہے کہ وہ اصلاً ایک اخلاقی وجود ہے۔ اگر ایک فرد سیاست کو اپنا میدانِ عمل بناتا ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ سیاست کا ماحول پاکیزہ ہو۔ اس پاکیزگی کی بنا خارج میں نہیں، ایک سیاست دان کے اخلاقی وجود میں ہے۔
ہم نے مذہب و سیاست کی یکجائی کا مطلب خارج میں مذہب کے اظہار کو سمجھا۔ کچھ قوانین منظور کرکے یہ خیال کیا کہ اب سیاست مسلمان ہو گئی ہے۔ سیاستدان وہی رہے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ چنگیز خان ایک فرد کا نام تھا، کسی نظام کا نہیں۔ سیاست میں چنگیزی اسی وقت آتی ہے جب سیاستدان اپنے اخلاقی وجود کی تطہیرسے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ ہم نے سمجھا چنگیزی کوئی نظام ہوتا ہے۔ یوں سیاست کیلئے متبادل ‘نظام‘ تلاش کرتے رہے۔ ‘چنگیز خان‘ اپنی جگہ موجود رہا۔
سیاست، نظامِ اجتماعی کے قیام اوراس کا بقاکی سائنس ہے۔ ریاست کے استحکام میں عصبیتیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جب سیاست و مذہب کو یکجا کیا تو مذہب کو بھی ایک عصبیت بنادیا گیا۔ لوگوں نے دیگر عصبیتوں کی طرح مذہب سے سیاسی فوائد کشید کرنا چاہے۔ مسلم تاریخ میں جب پہلی مرتبہ یہ کام ہوا تو فرقہ واریت کی بنیاد رکھ دی گئی۔ آنے والے اس پر ردے جماتے چلے گئے۔ اب یہ ایسی دیوار ہے جو آسمان تک جا پہنچی اور مسلمانوں کے مابین حائل ہے۔ سیاسی ارتقا نے جمہوریت کو ایک مسلمہ کی حیثیت دے دی تو اس نے خیالات کے تنوع کا مسئلہ حل کر دیا۔ اس میں مذہبی تنوع بھی شامل ہے۔ اقبالؒ نے سب سے پہلے اسکی افادیت کی طرف متوجہ کیا‘ جب پارلیمان کو ایک طرح سے اجماع کا متبادل قرار دیا؛ تاہم اس سے مسلکی یا فقہی اختلاف کا مسئلہ تو حل ہوسکتا ہے، فرقہ واریت کا نہیں۔
پاکستان کے علما نے بھی جدید ریاست کو سامنے رکھتے ہوئے، فقہی اختلاف کے مسئلے کو حل کیا۔ متفقہ بائیس نکات سے 1973ء کے آئین تک، یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلکی یا فقہی اختلاف ہمارے لیے سیاسی یا سماجی مسئلہ نہیں بنا۔ اسلامی نظریاتی کونسل جیسے آئینی ادارے کا قیام بھی اسی جانب ایک پیش رفت تھا۔ ان اقدامات سے پاکستان میں شیعہ سنی اختلاف، ایک فطری دائرے تک محدود ہوگیا۔
ء1979 کے انقلابِ ایران نے سارے منظرنامے کو ہلا دیا۔ مشرقِ وسطیٰ میں اضطراب پیدا ہوا جب انتقالِ انقلاب کا تصور سامنے آیا۔ پاکستان کی سرحدوں پر اس زور سے دستک ہوئی کہ دروازے کھل گئے اور انقلاب کی صدا ہر طرف گونجنے لگی۔ عرب ممالک پاکستان کو اپنا فطری حلیف اور مشکل کا ساتھی سمجھتے ہیں۔ وہاں سوچ پیدا ہوئی کہ پاکستان کہیں انقلابِ ایران کے حامیوں کے ہاتھوں میں نہ چلا جائے۔ اس تنائو کے اثرات یہاں بھی مرتب ہوئے۔ 1990ء تک پہنچتے پہنچتے، مشرقِ وسطیٰ اور پاکستان کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہو چکاتھا۔ اب اس پر فرقہ واریت کا رنگ غالب تھا۔ ولی رضا نصر نے اپنی انگریزی کتاب ‘احیائے تشیع‘ میں بتایا ہے کہ ایرانی انقلاب سے پہلے، عرب ممالک میں شیعہ مسلمان، عرب قوم پرست جماعتوں میں شامل تھے۔ انقلاب کے بعد انہوں نے شیعہ شناخت کے ساتھ اپنی سیاسی تنظیم کا آغاز کیا۔ اس کے اثرات یہاں بھی مرتب ہوئے۔ طالبان افغانستان میں برسرِ اقتدار آئے تواس سے بھی فرقہ واریت کو مہمیز ملی۔
ء1990 کی دہائی اور بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ہمارے ہاں یہ کشمکش جس سطح تک پہنچی، اس نے ہمارے معاشرے اور ریاست کی چولیں ہلا دیں۔ اس میں القاعدہ اور داعش کے تصورِ جہاد کوبھی شامل کر لیں۔ اس کے بعد ذمہ دار لوگوں کوکسی حد تک حالات کی سنگینی کااندازہ ہوا۔ اُس وقت روک تھام کی نیم دلانہ سی کوشش ہوئی اور حالات میں تدریجاً سکون آنے لگا۔ مذہبی جماعتوں کو بھی احساس ہونے لگاکہ ہم سے غلطی ہوئی۔ زبانِ قال سے نہ سہی، زبانِ حال سے انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ ‘پیغامِ پاکستان‘ اس کا تازہ ترین مظہر ہے۔
چند سال پہلے، مشرقِ وسطیٰ کی سیاست نے پھر کروٹ لی۔ یمن میں خانہ جنگی کی آگ بھڑک اٹھی، جس پر تیل ڈالنے میں خطے کے سب مسلمان ممالک حسبِ توفیق شریک تھے۔ پاکستان پھر ان ممالک کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ ایک ملک نے چاہاکہ پاکستان اس کی حمایت میں یمن میں اپنی فوج اتار دے۔ وزیراعظم نوازشریف نے مزاحمت کی تو دوستوں کا غصہ بھڑک اٹھا۔ نواز شریف کے کاشانۂ اقتدار تک بھی اس کی تپش پہنچی۔
اس بار وزیراعظم عمران خان نے بھی ایک جسارت کر ڈالی اور ترکی کے گلے میں بانہیں ڈال دیں جو خطے کی قیادت کانیا امیدوار ہے۔ اس پر بھی غصہ آیا اور اس کا اظہار ہوا۔ جب حکومتوں پر بس نہ چلے تو دوست اپنے محبان کو متحرک کرتے ہیں۔یہ رضاکار لڑتے ہیں‘ ساتھ ہی حکومت کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس طرح یہ لڑائی ریاستی سطح سے سماجی سطح تک پھیل جاتی ہے۔ تحفظِ بنیادِ اسلام بل کی غیرضروری منظوری کی کوئی دلیل مجھے نہیں مل سکی۔ میں یہ بھی نہیں جان سکاکہ کراچی کے ایک مذہبی اجتماع میں کیوں ایسی حرکت کی گئی جس کے نتائج معلوم تھے؟ اسلام آباد کے قرب میں ایک مقرر نے کیوں ایک مقدس ہستی کو ہدف بنایا؟ کیا یہ لوگ واقف نہیں تھے کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں یہ سب کچھ وائرل ہوگا اور اس کا رد عمل سامنے آئے گا؟
دوسری طرف سے ان دو واقعات کو ایسے پیش کیا گیا جیسے ایک طبقہ اجتماعی حیثیت میں اس کا ذمہ دار ہے حالانکہ اس طبقے میں بہت سے لوگ موجود تھے جو خود ایسے افراد کے خلاف مقدمات درج کرا رہے تھے۔ کیا یہ سب اتفاقیہ ہورہا ہے؟ میرے لیے تو ان سب واقعات اور اس اشتعال کو مشرقِ وسطیٰ کی سیاست سے الگ کرکے سمجھنا مشکل ہے۔
فرقہ واریت ہمارا مقامی مسئلہ نہیں تھا۔ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک، ہماری سیاست فرقہ واریت سے پاک رہی۔ یہ معمولی بات نہیں کہ سنی اکثریت کا سب سے غیر متنازع اور بڑا سیاسی لیڈر ایک شیعہ ہے۔ قائداعظم کی قیادت کو سنی شیخ الاسلام سے لے کر ایک عامی تک نے اپنا راہنما مانا۔ یہ بھی عام بات نہیں کہ اسماعیلی شیعہ آغاخان نے تحریکِ خلافت کے دنوں میں، برصغیر کے مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے، ترک حکمرانوں سے خلافت کو برقرار رکھنے کی درخواست کی۔
اس لیے میرا کہنا یہ ہے کہ مذہب کو جب سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا تا ہے تو اس سے فرقہ واریت جنم لیتی ہے۔ یہ فرد ہو یا اجتماع، مذہب زندگی کو پاکیزہ اور شفاف بناتا ہے۔ ہم نے اسے خارجی اور داخلی معاملات میں عصبیت بناکر، زندگی کو آلودہ کردیا۔ اس آلودگی کو ختم کرنا شاید اب ممکن نہیں۔
مہمان تحریر – خورشید ندیم