سستر سال کا یہ طویل قامت، دھان پان شخص، ایک فرد نہیں ایک ادارہ ہے۔ ایک ریسرچ سنٹر ہے، ایک لشکر ہے۔
ادارہ! کیونکہ تن تنہا اس نے اتنا کام کیا جتنا بڑے بڑے ادارے موٹی موٹی گرانٹس سے سرانجام دیتے ہیں۔ ریسرچ سنٹر! اس لیے کہ قائد اعظمؒ اور پاکستان پر جہاں بھی، جتنا کچھ بھی‘ لکھا گیا ہے یا کہا گیا ہے اسے اُس کی خبر ہے۔ اسّی‘ نوّے سال پہلے کے اخبارات ہوں یا دنیا کے کسی کونے میں قائد اعظمؒ یا قائدؒ کی جدوجہد کے متعلق کوئی کتاب، کوئی جریدہ یا کوئی دستاویز ہو، یہ 77 سالہ طویل قامت شخص اس سے آگاہ ہوتا ہے۔ لشکر! اس لیے کہ وہ ایک اکیلا ہے مگر پورے لشکر کا مقابلہ لشکر کی طرح کرتا ہے۔ قلم اس کی شمشیر ہے۔ تحقیق اس کا نیزہ ہے۔ ریسرچ میں دیانت اس کی ڈھال ہے۔ قائد اعظمؒ سے محبت وہ جذبہ ہے جس سے مسلح ہو کر وہ ہر اُس دشمن، ہر اُس بد اندیش، ہر اُس فتنہ پرور اور ہر اُس عفریت کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا ہو جاتا ہے جو قائدؒ پر، پاکستان پر یا علامہ اقبالؒ پر حملہ آور ہو۔
قائد اعظمؒ کا یہ سپاہی ڈاکٹر صفدر محمود ہے! مجھے کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے‘ ڈاکٹر صاحب قدرت کی طرف سے اس کام پر مامور کیے گئے ہیں۔ یہ سراسر توفیق الٰہی ہے۔ جس طاقت نے قائد اعظمؒ سے اتنا بڑا کام لیا کہ دنیا حیران رہ گئی، وہی طاقت اب صفدر محمود جیسے جینوئن محقق سے قائد اعظمؒ اور تحریک پاکستان کا دفاع کروا رہی ہے۔
قائد اعظمؒ اور تاریخ پاکستان پر ڈاکٹر صاحب نے درجنوں اہم کتابیں تصنیف کی ہیں مگر ان کی تازہ ترین تصنیف ‘سچ تو یہ ہے‘ اس لیے معرکہ آرا ہے کہ اس میں تقریباً اُن تمام اعتراضات کے مسکت جوابات دیے گئے ہیں جو آج کل ایک مخصوص لابی قائدؒ، اقبالؒ اور تحریک پاکستان کے حوالے سے کر رہی ہے اور خالی الذہن نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ صرف چند عنوانات ملاحظہ کیجیے اور اندازہ لگائیے کہ کس قدر حساس معاملات پر ڈاکٹر صاحب نے رہنمائی کی ہے۔ یہ رہنمائی محض جذبات یا لفاظی کی مرہون منت نہیں، بلکہ ٹھوس دلائل اور حوالہ جات پر مبنی ہے۔
٭ خطبۂ الہ آباد، قرار داد پاکستان اور مخالفین کے بے بنیاد الزامات؛
٭ ریڈ کلف ایوارڈ اور ایک مؤرخ کی مو شگافیاں؛
٭ قائد اعظمؒ، جگن ناتھ آزاد اور قومی ترانہ… سب سے بڑا جھوٹ؛
٭ قرارداد پاکستان پر بہتان؛
٭ قائد اعظمؒ کے آخری ایام اور سازشی افسانے؛
٭ اقبالؒ، جناحؒ اور مذہبی کارڈ؛
٭ قائد اعظم ثانی!!
پاکستان کی تحریک اور تاریخ پر پڑا ہوا گرد و غبار ڈاکٹر صاحب کس طرح صاف کر رہے ہیں‘ صرف ایک مثال سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پہاڑ جتنے مضبوط دلائل سے بات کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ سے ایک حاطب اللیل گروہ یہ شوشہ چھوڑ رہا ہے کہ قائد اعظمؒ نے قیام پاکستان سے پہلے 9 اگست 1947 کو جگن ناتھ آزاد کو بلا کر پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کو کہا‘ جنہوں نے پانچ دن میں لکھ کر پیش کر دیا‘ جسے قائد اعظمؒ نے منظور کر لیا۔ پھر یہ اعلانِ آزادی کے ساتھ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔ 23 فروری 1949 کو حکومت نے قومی ترانے کے لیے کمیٹی بنائی تو یہ ترانہ بند کر دیا گیا۔ اب دیکھیے ڈاکٹر صاحب نے شرارت پر مبنی اس سفید جھوٹ کا تاروپود کس طرح بکھیرا ہے۔ اول‘ قائد اعظمؒ مکمل طور پر قانونی اور جمہوری مزاج رکھتے تھے۔ یہ نا ممکن تھا کہ وہ ماہرین، کابینہ اور حکومت کی رائے لیے بغیر خود ہی کسی کو یہ کام سونپ دیتے اور پھر خود ہی چپ چاپ اس کی منظوری بھی دے دیتے۔ یہ ان کے مزاج ہی میں نہ تھا۔ شاعری اور اردو فارسی سے ان کا تعلق بھی زیادہ نہ تھا۔ دوم‘ ان کی عمر کا زیادہ حصہ بمبئی اور دہلی میں گزرا۔ 1947 میں وہ 71 سال کے تھے۔ جگن ناتھ آزاد اُس وقت 29 سال کے غیر معروف نوجوان تھے۔ لاہور میں رہتے تھے اور ایک اینٹی پاکستان ہندو اخبار جے ہند میں نوکری کر رہے تھے۔ قائد اعظمؒ سے تو ان کی شناسائی بھی ممکن نہ تھی کجا یہ کہ وہ انہیں بلا کر قومی ترانہ لکھنے کا حکم دیتے۔ سوم‘ قائد اعظمؒ کوئی عام شہری نہ تھے۔ ان کے ملاقاتیوں کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا تھا۔ پروفیسر سعید کی کتاب وزٹرز آف پاکستان میں 25 اپریل 1948 تک کی ملاقاتوں کا ریکارڈ محفوظ ہے۔ اس میں جگن ناتھ آزاد کا کہیں نام نہیں۔ چہارم‘ سید انصار ناصری کی تصنیف ‘پاکستان زندہ باد‘ میں7 اگست سے پندرہ اگست تک کی مصروفیات کوَر کی گئی ہیں۔ اس میں بھی جگن ناتھ کا ذکر نہیں۔ پنجم‘ پھر ڈاکٹر صاحب نے اُس اے ڈی سی کی تلاش شروع کی جو قائد اعظمؒ کے ساتھ تعینات تھے۔ یہ عطا ربانی تھے۔ پیپلز پارٹی کے معروف رہنما رضا ربانی کے والدِ محترم! ان سے ملاقات مشکل تھی۔ مجید نظامی کی مدد سے ڈاکٹر صاحب ان سے ملے۔ ان کا جواب تھا کہ جگن ناتھ آزاد نام کا کوئی شخص قائد سے ملا نہ ان کی زبان سے کبھی اس کا نام سنا گیا۔ ششم‘ پھر ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز چھانے گئے کہ ان میں کہیں جگن ناتھ آزاد کے کسی ترانے کا کوئی ذکر مل جائے‘ لیکن ایسا کوئی ثبوت ان آرکائیوز میں کہیں نہیں۔ چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی رات، اعلانِ آزادی کے فوراً بعد احمد ندیم قاسمی کا گیت نشر ہوا تھا:
پاکستان بنانے والے! پاکستان مبارک ہو
اس کے بعد مولانا ظفر علی خان کا نغمہ گایا گیا:
توحید کے ترانے کی تان اڑانے والے
ہفتم‘ اُس زمانے میں ریڈیو کے پروگرام اخبارات میں چھپتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اگست 1947 کے اخبارات چھان مارے‘ ان میں انہیں جگن ناتھ آزاد کا نام کہیں نہ تھا۔ ہشتم‘ ریڈیو پاکستان کے رسالے ‘آہنگ‘ میں بھی، جس میں ریڈیو پاکستان کے ایک ایک پروگرام کا ریکارڈ ہوتا ہے‘ آزاد کا نام کہیں نہیں۔ نہم‘ خالد شیرازی نے 14 اگست سے لے کر 21 اگست 1947 تک کے ریڈیو پروگراموں کا چارٹ بنایا تھا۔ انہوں نے بھی اس دعوے کو ماننے سے صریحاً انکار کیا۔ دہم‘ سب سے بڑھ کر یہ کہ جگن ناتھ آزاد نے وفات تک خود کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ قائد اعظمؒ سے ان کی ملاقات ہوئی یا انہوں نے ترانہ لکھنے کا کہا۔ اپنی تصنیف ‘آنکھیں ترستیاں ہیں‘ میں انہوں نے یہ لکھا ہے کہ ریڈیو پاکستان لاہور سے انہوں نے اپنا ملی نغمہ سنا۔ کب سنا؟ اس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ قومی ترانے اور ملی نغمے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ قائد اعظمؒ سے ملاقات اور ان کے حکم سے ترانہ لکھنا کوئی ایسا معمولی کام نہیں تھا کہ آزاد اس کا ذکر نہ کرتے۔ ایسا ہوا ہوتا تو وہ اس اعزاز کا کئی بار ذکر کرتے۔
یہ صرف ایک مثال ہے۔ مقصود صرف یہ بیان کرنا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ہر اُس شک، اعتراض، افترا پردازی اور دروغ گوئی کا رد کرنے کی سعی کی ہے جو پاکستان اور بانیٔ پاکستان کے حوالے سے کچھ لوگ، شرارت یا جہالت کی وجہ سے، پھیلا رہے ہیں۔ دیانت داری کی بات یہ ہے کہ تاریخِ پاکستان کے ہر طالب علم کو اس مجموعۂ مضامین کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
پاکستان اقبالؒ کی فکر اور قائد اعظمؒ کی جدوجہد کا حاصل ہے۔ اس جدوجہد میں بر صغیر کے مسلمانوں کا خون شامل ہے۔ یہ جدوجہد سچائی اور صرف سچائی سے عبارت تھی۔ پہلے بھی سچائی جیتی‘ آئندہ بھی سچائی ہی غالب رہے گی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آج، جب فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے کانگرس نواز مسلمان قائد اعظمؒ کے مؤقف کو درست تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں، پاکستان میں بے سروپا بحثیں چھیڑی جا رہی ہیں!!
مہمان تحریر – اظہارالحق