Shadow
سرخیاں
مغربی طرز کی ترقی اور لبرل نظریے نے دنیا کو افراتفری، جنگوں اور بےامنی کے سوا کچھ نہیں دیا، رواں سال دنیا سے اس نظریے کا خاتمہ ہو جائے گا: ہنگری وزیراعظمامریکی جامعات میں صیہونی مظالم کے خلاف مظاہروں میں تیزی، سینکڑوں طلبہ، طالبات و پروفیسران جیل میں بندپولینڈ: یوکرینی گندم کی درآمد پر کسانوں کا احتجاج، سرحد بند کر دیخود کشی کے لیے آن لائن سہولت، بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث، صرف برطانیہ میں 130 افراد کی موت، چشم کشا انکشافاتپوپ فرانسس کی یک صنف سماج کے نظریہ پر سخت تنقید، دور جدید کا بدترین نظریہ قرار دے دیاصدر ایردوعان کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رنگ برنگے بینروں پر اعتراض، ہم جنس پرستی سے مشابہہ قرار دے دیا، معاملہ سیکرٹری جنرل کے سامنے اٹھانے کا عندیامغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے، یہ ان کے خود کے لیے بھی خطرناک ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئے

قاسیم سلیمانی کا قتل: وہ مشورے جن پر ٹرمپ نے عمل نہیں کیا

واشنگٹن پوسٹ کے رپورٹر باب ووڈورڈ نے اپنی نئی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ رپبلکن سینیٹر لنزی گراہم نے امریکی صدر کو اس فیصلے سے باز رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا نتیجہ ‘ایک مکمل جنگ’ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

کوئی دوسرا صحافی تحقیقی صحافت کرنے والے امریکی صحافی باب وڈورڈ کی طرح دنیا کی سانس نہیں روک سکتا۔ جب کہ ہر کوئی ‘ریج’کے عنوان سے ان کی نئی کتاب کے منظرعام پر آنے کے انتظار میں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے بارے میں اس کتاب کے کچھ حصے انٹرنیٹ پر پہلے ہی شائع کردیے گئے ہیں۔

باب وڈورڈ 1972 میں 29 سال کے تھے اور وہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے ساتھ منسلک تھے۔ ان کے ایک کام نے انہیں عالمی شہرت اور اہمیت دی۔ وہ واٹرگیٹ سکینڈل کو منظرعام پر لائے  جس پر بالآخر امریکی صدر رچرڈنکسن کو استعفیٰ دینا پڑا۔

امریکی تاریخ میں پہلی بار وائٹ ہاؤس کے سربراہ مستعفی ہوئے، ایسا اس کے بعد دوبارہ کبھی نہیں ہوا۔ وڈورڈ نے کئی سال تک ہمیشہ اپنی ساکھ کو وائٹ ہاؤس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا۔ بہت سے امریکی صدور نے کئی بار ان کے ساتھ تب بھی نجی نوعیت کی گفتگو کی جب انہوں نے امریکی صدور کے خلاف لکھا۔ مثال کے طور پر سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے وڈورڈ کے ساتھ ان کی چار کتابوں پر بات کی۔ باراک اوباما نے بھی کئی مرتبہ وڈورڈ کی بات سنی۔

وہ امریکی صدر جو ملکی سیاسی اشرافیہ کے باہر سے آئے، ان کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ وہ ان سے بات کریں، اور اپنا مؤقف پیش کریں۔ اطلاعات کے مطابق صدر ٹرمپ اب تک 18 مرتبہ وڈورڈ سے بات کر چکے ہیں۔ اپنی گزشتہ کتاب خوف میں ووڈ ورڈ نے لکھا کہ بظاہر اس کا مقصد تعلقات کو بڑھانا اور منفی انداز میں پیش ہونے سے بچنا ہو سکتا ہے۔

ووڈورڈ کے مطابق ٹرمپ نے چند ہفتے پہلے انہیں 19ویں دفعہ فون کیا اور آئندہ آنے والی کتاب میں متحدہ عرب امارات، اسرائیل  امن معاہدے کی روداد شامل کرنے کے لیے کہا، لیکن صحافی کا جواب تھا کہ اب بہت دیر ہو چکی اور کتاب شائع ہونے والی ہے۔

اس لحاظ سے وڈورڈ کی کتاب تاریخی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس میں ٹرمپ کے فیصلوں کی تفصیل دی گئی ہے۔ انہوں نے کرونا (کورونا) وائرس کے بحران کی جو تفصیل بیان کی ہے اس پر امریکی شہریوں نے زیادہ توجہ دی ہے۔ مثال کے طور پر یہ حقیقت کہ ٹرمپ کو وائرس کے حوالے سے دنیا میں خراب ہوتی صورت حال کا پتہ تھا لیکن انہوں نے اس معاملے پر شہریوں کو خاطرخواہ خبردار نہیں کیا۔

تاہم اس کتاب میں ایرانیوں کے لیے اہم ترین حصہ ٹرمپ کے فیصلے کی وہ تفصیل ہے جس کے تحت تین جنوری کو پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے جنرل قاسم سلیمانی کو عراقی کمانڈر ابومہدی المہندس اور دیگر آٹھ افراد کے ساتھ ڈرون حملے میں مارا گیا۔ اس فیصلے کے بارے میں کتاب میں شامل حصے مغربی اور اسرائیلی میڈیا میں شائع ہوئے ہیں۔

سینیٹر کا خبردار کرنا

ہم نے وڈورڈ کی کتاب میں پڑھا ہےکہ رپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والی شخصیت نے جنرل سلیمانی کے قتل کے حوالے سے سب سے زیادہ خبردار کیا۔ یہ شخصیت جنوبی کیرولینا سے ری پبلکن سینیٹر لنزی گراہم تھے۔

گراہم رپبلکن پارٹی کے سمجھ دار لوگوں میں سے ایک ہیں، خاص طور پر خارجہ پالیسی کے میدان میں۔ انہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ ایران کے  ساتھ نمٹنے کے لیے سخت پالیسی اپنائی جائے۔ صدر اوباما کے دور میں (نومبر 2010 میں ہیلی فیکس انٹرنیشنل سکیورٹی سربراہ کانفرنس) سے خطاب میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ایران پر پیشگی فوجی حملہ کردیا جائے۔ یمن میں سعودی فوجی مداخلت کے آغاز پر گراہم نے کہا: ‘میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات چاہتا ہوں۔ وہ ہمارے سٹریٹجک شراکت دار ہیں۔ وہ ایران کے سخت دشمن ہیں۔’

اس بار اگرچہ سینیٹر گراہم تشویش میں مبتلا تھے۔ 30 دسمبر کو ڈونلڈٹرمپ کے ساتھ گولف کھیلتے ہوئے انہوں نے انہیں حملے کے  نتائج کے بارے میں خبردار کیا۔ یہ ٹرمپ کے دفتر کے اس وقت کے سربراہ مک ملوینی تھے، جنہوں نے گراہم سے کہا تھا کہ وہ اس معاملے میں ٹرمپ سے بات کریں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر کچھ دیر تک سلیمانی کے ممکنہ قتل پر غور کرتے رہے تھے۔

30 دسمبر کو ہونے والی گفتگو خاص تھی۔ تین دن پہلے (27 دسمبر کو) ایران سے قربت رکھنے والی عراقی ملیشیا نے کرکوک کے قریب فوجی اڈے پر حملہ کرکے ایک امریکی ٹھیکے دار کو ہلاک کر دیا تھا۔ دو دن بعد جوابی کارروائی کرتے ہوئے امریکہ نے عراق میں حزب اللہ کے ٹھکانوں کو فوجی حملے کا نشانہ بنایا۔ ساتھ ہی اس وقت جب ٹرمپ اور گراہم گولف کھیل رہے تھے، عراق میں بدر تنظیم کے سربراہ اور ایران سے قربت رکھنے والے ہادی عامری اور عسکری تنظیم اہل الحق امریکی سفارت خانے پر حملے کی تیاری کر رہے تھے۔

اگلے روز بغداد میں امریکی سفارت خانے کے خلاف مظاہرے کیے گئے جن میں ایران کے قریبی ان شخصیات نے بنیادی کردار ادا کیا۔ چند روز بعد جب قاسم سلیمانی بغداد گئے تو امریکی ڈرونز نے انہیں طیارے سے اترنے کے چند منٹ بعد ہلاک کر دیا۔

تاہم 30 دسمبر کو گراہم نے خبردار کیا کہ سلیمانی کو مارنے کا مطلب ‘ایک نیا کھیل’اور ایک ‘بڑا قدم’ ہوگا، جس کا نتیجہ تقریباً ‘ایک مکمل جنگ’ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ گراہم نے تجویز دی کہ سلیمانی کی بجائے کسی چھوٹے افسر کو مارا جائے، جسے برداشت کرنا ہر کسی کے لیے زیادہ آسان ہو گا۔

امریکہ کے جنوبی علاقے سے تعلق رکھنے والے سینیٹر نے ٹرمپ سے جوئے خانےکی زبان میں بات کی اور کہا کہ سلیمانی کا قتل ‘بلیک جیک کے 10 ہزار ڈالر کے داؤ کے مقابلے میں بلیک جیک کا 10 ڈالر کا داؤ کھیلنے جیسا ہے۔’

تاہم آخر میں ٹرمپ نے گراہم اور دوسرے  لوگوں کی بات نہیں سنی۔ ان کے خیالات امریکی خفیہ ادارے (سی آئی اے) کی ڈائریکٹر جینا ہیسپل کے قریب تھے، جنہوں نے کہا تھا کہ امریکہ کے پاس سلیمانی کو ختم کرنے کا موقع ہے۔ سلیمانی کو ختم کر دیا گیا اور بالآخر جنگ نہیں ہوئی۔

جوئے میں کامیابی

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جو کہانی وڈورڈ نے بیان کی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ نے درست داؤ لگایا اور گراہم غلطی پر تھے۔ سینیٹر گراہم کی پیش گوئی کے برعکس کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ عراق میں امریکی فوجیوں پر ایرانی حملے میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی (اگرچہ اس رات ایرانی پاسداران انقلاب کے 176 میزائلوں نے تہران سے یوکرین کے دارالحکومت کیف جانے والے مسافر طیارے کا مار گرایا) اور ٹرمپ نے جوابی کارروائی نہیں کی۔

اسرائیلی اخبار’یروشلم پوسٹ’کے کالم نگار سیتھ فرنٹزمن نے شہ سرخی جمائی: ‘نئی کتاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ سلیمانی پر ٹرمپ کے جوئے نے ‘جنگ’کے خوف کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔’

فرنٹزمن لکھتے ہیں: ‘ٹرمپ نے درست جوا کھیلا تھا کہ بڑی جنگ ایران کے بس کی بات نہیں ہے اور وہ سلیمانی کے قتل کا جواب نہیں دے گا۔’

انہوں نے اپنے تجزیے میں لکھا: ‘ایران کے ساتھ جنگ کا کوئی امکان نہیں تھا کیونکہ یہ ایران کے بس کی بات نہیں تھی۔ ایران امریکی اتحادیوں کو مشتعل کرنا چاہتا تھا۔ جیسا کہ ہم نے ستمبر میں سعودی عرب پر ڈرونز اور کروز میزائلوں کے حملے سے دیکھا کہ ایران کا مقصد میزائل، ڈرون اور بارودی سرنگیں استعمال کرنا تھا اور وہ امریکہ کے ساتھ معمول کی جنگ نہیں چاہتا تھا۔ جنوری میں ٹرمپ کا جوا یہ تھا کہ ایران حقیقی جنگ شروع نہیں کرے گا اور اب تک یہ بات درست ثابت ہوئی ہے۔

مہمان تحریر – عرش عزیزی

دوست و احباب کو تجویز کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

10 − 2 =

Contact Us