امریکی صدارتی انتخابات جوں جوں نزدیک آرہے ہیں، امیدواروں میں سیاسی بیان بازی کے حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں صدر ٹرمپ اپنے مد مقابل صدارتی امیدوار جوبائیڈن کو شدت پسند بائیں بازو کی کٹھ پتلی کہہ کر چڑاتے نظر آرہے ہیں پر لگتا ہے کہ امریکی بائیں بازو کا حلقہ ان سے مطمئن نہیں ہے۔
حال ہی میں ڈیموکریٹ رہنما برنی سینڈر نے جماعت کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن کے لیے شکایت اور مشورے سے لپا ہوا بیان جاری کیا ہے، سینڈر کا کہنا ہے کہ بائیڈن کو انتخابات کے لیے بائیں بازو کی حمایت جیتنے کی کوشش کرنی چاہیے، پر انکے اصرر کے باوجود بائیڈن کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ واضح رہے کہ برنی سینڈر لبرل نظریے کی حامل ڈیموکریٹ پارٹی کے شراکتی نظریات کے لیے معروف رہنما ہیں، اور انہوں نے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے اپنی نامزدگی جوبائیڈن کے حق میں واپس لی تھی۔
صدر ٹرمپ اپنے انتخابی جلسوں میں اکثر کہتے نظر آتے ہیں کہ جوبائیڈن بائیں بازو والوں کا آلہ کار ہے، جو امریکہ کو تباہ کر دے گا۔ ٹرمپ، بائیڈن کو حالیہ ہنگاموں کا حمائیتی بھی کہتے ہیں جن میں کروڑوں ڈالر کی نجی و سرکاری املاک کو سیاہ فام امریکیوں کی حمایت میں نکالے مظاہروں کے دوران نقصان پہنچایا گیا۔
ایسے میں برنی سینڈر زور دے رہے ہیں کہ اگر بائیڈن نے بائیں بازو کی حمایت کے لیے اپنا رویہ نہ بدلا تو نومبر میں صدر ٹرمپ کے ہاتھوں بری طرح ہار جائیں گے۔
سینڈر کا کہنا ہے کہ بائیڈن نے اپنی مہم کا مرکز صدر ٹرمپ کو بنا رکھا ہے، صدر کے خلاف بیانات اور بدعنوانیوں کو ابھارنے کے علاوہ بائیڈن کی مہم میں کچھ نہیں ہے۔ صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ نہیں، بلکہ اپنا بیانیہ دینا بھی ضروری ہے۔ سینڈر کے مطابق ان کے حامی نوجوانوں کے دل جیت کر زیادہ فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے، نوجوان معاشی نظام میں تبدیلیاں چاہتے ہیں۔
سینڈر چاہتے ہیں کہ بائیڈن شعبہ صحت میں ریاستی کردار اور بنیادی تنخواہ کو بڑھانے کے حوالے سے منصوبوں کا اعلان کریں، تارکین وطن کے حوالے سے قوانین کو نرم کیا جائے اور ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے بھی منصوبوں کا اعلان کیا جائے۔ اس کے علاوہ سینڈر مرکزی ریاستوں میں بائیں بازو کی سیاست کے حامی سیاستدانوں کے ساتھ مل کر مہم چلانے پر بھی زور دے رہے ہیں۔ جس سے لاطینی اور دیگر گروہوں کی حمایت حاصل ہونے کا امکان ہے۔ یہ گروہ پہلے سینڈر کے حامی تھے تاہم حالیہ سرووں کے مطابق سینڈر کے نامزدگی واپس لینے پر غم و غصے میں ٹرمپ کی طرف کھسک رہے ہیں۔ خصوصاً جبکہ سینڈر بائیڈن کو بائیں بازو کے لیے حساس معاملات کی حمایت پر راضی نہیں کر پا رہے۔
اس کے علاوہ سینڈر کے خلاف نامزدگی تک چلائی جانے والی امریکی لبرل ذرائع ابلاغ کے اداروں کی مہم بھی انکے حامیوں کو بائیڈن کی حمایت سے روک رہی ہے۔ یاد رہے سینڈر پر لبرلوں کی جانب سے روسی حمایت کے الزامات لگتے رہے ہیں، انہیں شدت پسند دکھانے کے لیے ہٹلر یہاں تک کہ بائیں بازو کا ڈونلڈ ٹرمپ تک کہا جاتا رہا ہے۔ صرف ایک اخبار، واشنگٹن پوسٹ نے ایک ماہ میں سینڈر کے خلاف دس تحریریں شائع کیں۔
تاہم اس سب کے باوجود برنی سینڈر، جو بائیڈن کے حق میں دستبردار ہو گئے اور اب اپنے حامیوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کو ہرانے کے مشترکہ مقصد کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔