روس نے ملک میں انتشار پھیلانے اور شہریوں خصوصاً نوجوانوں کو احتجاج پر اکسانے کے خلاف معروف سماجی میڈیا کمپنیوں پر پابندی لگانے پر غورشروع کر دیا ہے۔ ملکی کونسل برائے ابلاغی پالیسی کے سربراہ الیکژےپشکوو نے تجویز پیش کی ہے کہ فیس بک، ٹویٹر، ٹک ٹاک، انسٹا گرام اور دیگر سماجی میڈیا ویب سائٹوں پر ملک میں انتشار پھیلانے میں ملوث ہونے اور ملکی قوانین کا پاس نہ رکھنے کے جرم میں پابندی لگا دی جائے۔
کونسل اجلاس میں اکثریت نے رائے سے اتفاق کیا اور اسے ملکی خودمختاری کا معاملہ گردانتے ہوئے حکمت عملی بنانے پر اتفاق کیا۔ اجلاس کے اعلامیے میں واضح کہا گیا ہے کہ ابلاغی ٹیکنالوجی کمپنیاں ملک میں مظاہروں کو ابھارنے اور نوجوانوں کو غیر قانونی کام کرنے میں اکسانے میں ملوث پائی جا رہی ہیں، جس سے ملک میں انتشار پھیلنے اور جھوٹی خبروں کے کاروبار چلنے کا خطرہ ہے۔ کونسل کا کہنا ہے کہ ملک میں عدم استحکام کی اجازت نہیں دی جاسکتی، انتظامیہ ابلاغی کمپنیوں پر پابندی لگانے کی تجویز پر غور کرے۔
کمیشن میں ملک کی سکیورٹی صورتحال کو زیر بحث لاتے ہوئے مزید کہا گیا کہ ملک میں گزشتہ دو ہفتوں سے مظاہرے ہو رہے ہیں، جس کی وجہ حزب اختلاف کے ایک رہنما کے خلاف جاری عدالتی کارروائی کو سیاسی رنگ دینا ہے۔ اور اس ساری مہم میں امریکی ابلاغی کمپنیاں ملوث ہیں۔ روسی سماجی میڈیا صارفین کو ناوالنے کے حق میں اشتہار دکھائے جا رہے ہیں، اور نوجوانوں کو غلط معلومات سے احتجاج پر اکسایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ وباء کے دوران مظاہروں کو منظم رکھنے میں ملوث انتظامیہ کو بھی بدنام کیا جا رہا ہے اور باقائدہ مہم کے ذریعے ملک میں عدم استحکام کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔
کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یا تو ابلاغی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ملکی قوانین کا پابند کیا جائے یا ان پر پابندی لگا دی جائے۔
یاد رہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن بھی گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل سماجی میڈیا کمپنیوں کے متعصب رویے پر تنقید کر چکے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ کچھ ویب سائیٹیں ریاستوں سے زیادہ مظبوط ہو رہی ہیں اور فیصلے صادر کرتی ہیں کہ کون کیا سوچے اور کہے۔ ان کی سوچ سے اختلاف والے کی آواز بند کر دی جاتی ہے، انسانی آزادیوں کو خطرات لاحق ہیں۔