سکاٹ لینڈ کے شہریوں کی جانب سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی صحافی سارہ سمتھ کو ادارے سے نکالنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ سارہ سمتھ نے سکاٹی سیاست پر رپورٹ کرتے ہوئے سکاٹ لینڈ کے سابق نمائندہ وزیر ایلکس سیلمنڈ کے حوالے سے غلط بیان دیا تھا۔ سارہ سمتھ نے سابق وزیر کے حوالے سے کہا تھا کہ حالیہ وزیر نیکولا سٹرجن کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔
واضح رہے کہ سکاٹش نیشنل پارٹی کے سابق رہنما ایلکس سیلمنڈ پر جنسی ہراسانی کا الزام ہے، جس کے مواخذے کے لیے وہ ایک سال بعد پارلیمنٹ میں پیش ہوئے تو انہوں نے حالیہ وزیر نیکولا سٹرجن پر الزام لگایا کہ وہ انکے خلاف جھوٹے ثبوت بنانے کی کوشش کر رہی ہیں، جھوٹی گواہیاں تیار کی جا رہی ہیں اور پولیس پر بھی مقدمے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ سیلمنڈ نے اس حوالے سے حالیہ نمائندہ وزیر کے خلاف ثبوت ہونے کا دعویٰ بھی کیا۔
اسی مواخذے کے حوالے سے بی بی سی پر خبر دیتے ہوئے سارہ سمتھ نے کہا کہ سیلمنڈ نے سٹرجن پر طاقت کے ناجائز استعمال کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ انہیں مستعفی ہو جانا چاہیے۔
سیلمنڈ نے سارہ سمتھ کی خبر کی فوری تردید کی اور کہا کہ ان کے حوالے سے چلنے والا بیان چاہے اردتاً دیا گیا یا غلطی سے، دونوں صورتوں میں یہ غلط ہے۔ ان کی رائے میں سٹرجن نے طاقت کا غلط استعمال ضرور کیا ہے لیکن اس کے لیے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا، اور نہ ہی میں یہ اختیار رکھتا ہوں کہ اسے مستعفی ہونے کا مشورہ دوں، یا فیصلہ کروں کہ وہ نمائندہ رہے یا مستعفی ہو جائے۔
سیلمنڈ کی جانب سے وضاحت کے فوری بعد سکاٹی شہریوں نے بی بی سی صحافی کے استعفے کا مطالبہ شروع کر دیا، سکاٹیوں کا ماننا ہے کہ بی بی سی صحافی نے غلط خبر ارادتاً دی، جس کا مقصد سکاٹ لینڈ میں تقسیم پیدا کرنا اور آزادی کی تحریک کو نقصان پہنچانا تھا۔
صحافی سارہ سمتھ نے معاملے پر معافی مانگ لی ہے، اور کہا ہے کہ وہ ایسا نہیں کہنا چاہتی تھیں۔ بی بی سی نے بھی صحافی کی وضاحت اور معافی کے فوری بعد سارہ کے بیان کے ساتھ اپنی وضاحت جاری کر دی تاہم سکاٹی شہری اس سے قطعاً مطمئن نہیں ہیں۔
سماجی میڈیا پر سکاٹی شہریوں کا کہنا ہے کہ سارہ کی جانب سے سکاٹ لینڈ کے سیاستدانوں کے بارے میں تذبذب پیدا کرنے کی یہ پہلی کوشش یا غلطی نہیں، اس سے قبل بھی سارہ دو بار ایسی غلطی کر چکی ہے۔
واضح رہے کہ بی بی سی صحافی کی جانب سے کھڑا کیا معاملہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ سکاٹ لینڈ میں سیاسی رہنماؤں کی اکثریت برطانیہ سے علیحدگی کی مہم کا حصہ بن چکی ہے۔
اور دوسری طرف وزیراعظم بورس جانسن نے 2014 کے ریفرنڈم کی بنیاد پر واضح طور پر کہا ہے کہ 55٪ ووٹوں کے ساتھ سکاٹ لینڈ کی تحریک ناکام ہو گئی تھی، اب موجودہ نسل میں دوبارہ ریفرنڈم کی کوئی منطق نہیں بنتی۔