یورپی ملک لیٹویا کے صدر ایجل لیوائٹس نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ دس سالوں میں لیٹویا لسانی طور پر خالص لیٹویائی ریاست بن جائے گا اور ملک میں کسی دوسرے لسانی گروہ کو جگہ نہیں دی جائے گی۔ لیٹویا کے صدر نے مزید دعویٰ کیا کہ ملک میں لیٹویائی زبان اور تہذیب کے لیے مہم شروع کی جائے گی اور ساری آبادی کو یکسوئی کی طرف لایا جائے گا۔
واضح رہے کہ لیٹویا کی کل 20 لاکھ کی آبادی میں سب سے زیادہ روسی آباد ہیں، جو ملک کا 12 فیصد بنتے ہیں۔
صدر لیوائٹس نے اس لسانی تعصب پر مبنی رائے کا اظہار پارلیمنٹ میں کیا۔ خطاب میں صدر نے زور دیا کہ 2030 تک لیٹویا کو دنیا کی جدید ترین ریاست بنانے کے لیے بڑے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کی سیاسی قیادت کو مستقبل میں تیز ترقی کے لیے اہم فیصلے کرنے ہوں گے، ایسے فیصلے جن کا نمایاں اثر آئندہ چند سالوں میں نظر آئے۔
صدر لیوائٹس کا مزید کہنا تھا کہ لیٹویا صرف لیٹویا تہذیب کے لیے ہو گا، اور ملک دنیا میں اپنی الگ پہچان کے ساتھ ابھرے گا۔ یاد رہے کہ لیٹویا ایک کثیرالسانی ملک ہے، جس کی آبادی کا بڑا حصہ 71٪ روسی زبان بولتا ہے، اور دارلحکومت ریگا میں نصف آبادی روسی النسل ہے۔ جبکہ لیٹویا زبان ملک کی صرف 1 اعشاریہ 7 فیصد آبادی بولتی ہے۔ اس کے برعکس روسی زبان 11 ممالک میں تقریباً 26 کروڑ لوگ بولتے ہیں۔
واضح رہے کہ لیٹویا نے 2012 میں لیٹویائی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیا تھا، جبکہ روسی زبان کو سرکاری حیثیت دینے کے لیے ریفرنڈم کی کوشش کو بھی دبا دیا گیا تھا۔ اس وقت لیٹویائی صدر کا کہنا تھا کہ جسے اپنی زبان بولنا ہے وہ گھروں میں بول سکتا ہے، پر ملک میں سرکاری زبان صرف لیٹویائی ہی ہو گی۔ لسانی تعصب کے باعث لیٹویا 2012 سے سماجی کشیدگی کا شکار ہے، اور تعلیمی ادارے بھی سخت پالیسیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہنگامی طور پر قانون سازی اور عملدرداری کو یقینی بنایا جا رہا ہے جبکہ دیگر لسانی گروہوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔