امریکہ نے ایک بار پھر خلاء باز کو بین الاقوامی خلائی مرکز پر بھیجنے کے لیے روسی خدمات حاصل کی ہیں۔ امریکی اقدام پر روسی خلائی ادارے کے سربراہ نے تبصرے میں کہا ہے کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی خلائی سفر کی سہولت کس قدر غیر مستحکم ہے۔
واضح رہے کہ 2011 سے امریکہ خلاء تک رسائی کے لیے روسی سویوز نظام کا استعمال کر رہا ہے، یعنی امریکہ خود حکومتی سطح پر اس اہم ترین سہولت سے قاصر ہے، اور اب سپیس ایکس کمپنی نجی سطح پر حکومت کو یہ سہولت دینے پر کام کر رہی ہے۔
سپیس ایکس کے بارے میں مختلف حلقوں کا کہنا ہے کہ دراصل اس کے پیچھے بھی بڑے امریکی سرمایہ کاروں کی لابی کا ہاتھ ہے، جو ٹیکس کے پیسوں کو اینٹھنے کے لیے خلاء کے اہم ترین شعبے میں بھی نجی سرمایہ کاری کی فکر کو پروان چڑھا رہی ہے۔
منصوبے کا پہلا کامیاب تجربہ 2020 میں ہوا تھا تاہم منصوبہ تسلسل سے کامیاب واپس نزول کے ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے جس کے باعث اس پر حکومت مکمل انحصار نہیں کر رہی۔ اور یوں گزشتہ ایک دہائی سے واشنگٹن خلائی سفر کے لیے روس کا محتاج بنا ہوا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ نے روس کے ساتھ خلائی جہازوں میں ایک دوسرے کے خلاء بازوں کو جگہ دینے کے معاہدے پر 2011 میں دستخط کیے تھے۔
روس کو یہ شکوہ بھی ہے کہ روسی تعاون کے باوجود امریکہ نے 2014 میں روسی خلائی تحقیقاتی ادارے پر پابندیاں لگائیں، معاملے پر روسی نائب وزیراعظم نے ایک بار امریکہ کو طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ روس پر پابندیاں لگانے کے بعد امریکہ کو چاہیے کہ اپنے خلاء بازوں کو خلاء میں بھیجنے کے لیے تراپلین کا استعمال کرے، جس کے جواب میں 2020 میں سپیس ایکس کے مالک ایلن مسک نے اپنا خلائی جہاز بنانے پر کہا تھا کہ امریکی تراپلین تیار ہے۔ تاہم منصوبے میں ناکامی پر نائب وزیراعظم روگوزِن نے ایک بار پھر امریکی منصوبہ سازوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ امریکی معیار کافی گھٹیا ہے، انکا تراپلین کبھی کبھی ہی کام کرتی ہے۔