افغانستان میں برطانوی خصوصی کمانڈوؤں ایس اے ایس کے جنگی جرائم کے ویڈیو ثبوت اچانک تحقیقاتی ٹیم کے پاس سے گم گئے ہیں۔ معاملے کی تحقیقات جاری تھیں کہ قتل عام کی ویڈیو غائب ہوگئی اور شہادت کے لیے راضی گواہان بھی کسی جرم کی گواہی سے منکر ہو گئے ہیں۔
سیف اللہ یار کے خاندان کو ایس اے ایس کمانڈوؤں نے 2011 میں اسکے گاؤں میں بے دردی سے شہید کر دیا تھا، 2017 میں کابل میں معاملے کی تحقیقات شروع ہوئیں تو سیف اللہ نے برطانوی تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ فوجی اس کے ہاتھ باندھ کر اسے گھر سے دور لے گئے، گھر پر اسکا باپ، چچا زاد بھائی اور دیگر افراد موجود تھے، اچانک اسے گولیوں کے چلنے کی آواز آئی اور کچھ دیر بعد برطانوی فوجی چلے گئے، وہ واپس گھر گیا تو اسے گھر میں اسکے باپ اور دیگر اہل خانہ کی گولیوں سے چھلنی لاشیں ملیں۔
واقع کی ویڈیو امریکی فوجیوں کے جسمانی کیمرے میں محفوظ ہوئی تاہم جب اسے برطانوی فوجیوں کے جرائم کی تحقیقات کے لیے پیش کرنے ضرورت پیش آئی تو اچانک یہ غائب ہو گئی اور برطانوی عدالت کے لیے موجود واحد اور اہم دستاویزی ثبوت دستیاب نہ ہو سکا۔
یاد رہے کہ نیٹو افواج کے مسلم ممالک میں جنگی جرائم کی تحقیقات میں یہ پہلا واقع نہیں ہے کہ مظالم کے ثبوت مٹا دیے گئے ہوں، یا انہیں دانستہ طور پر عدالت میں پیش نہ کیا جائے۔ 2017 میں برطانوی شاہی فوج کی پولیس کو صرف اس ذمہ داری کے ساتھ افغانستان بھیجا گیا تھا کہ ملک میں ایس اے ایس کی جانب سے جنگی جرائم کی تحقیقات کی جائے اور عدالتوں سے مجرموں کو سزا دلوائی جائے۔ تحقیقاتی ٹیم نے ساڑھے تین سال معاملات کی تحقیقات کیں، تاہم بعد میں سامنے آیا کہ رپورٹ میں جرائم کو چھپایا گیا تھا اور ٹیم نے 2011 سے 2013 کے دوران ہونے والے متعدد واقعات کو درج ہی نہیں کیا۔
تحقیقاتی ٹیم نے 42 فوجیوں سے تفتیش کی، تاہم انہوں نے واقع بھول جانے کا کہہ کر کسی قسم کا تعاون نہ کیا۔ عدالتی کارروائی میں جج نے لکھا کہ یہ مشترکہ حافظہ کھو جانے کا انوکھا معاملہ ہے، جبکہ فوجیوں نے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے سیف اللہ کے گاؤں میں استعمال ہونے والا اسلحہ بھی تباہ کر دیا تاکہ کسی قسم کا ثبوت دستیاب نہ ہو سکے۔
تاہم اب عدالت اس بنیاد پر مقدمہ چلا رہی ہے کہ لاشوں کے جسم سے برآمد ہونے والی گولیاں برطانوی بندوق کی 5 اعشاریہ 56 ایم ایم کی گولیاں ہیں نہ کہ افغان فوجیوں کے زیر استعمال بندوق کی 7 اعشاریہ 62 ایم ایم کیں۔ جبکہ گھر سے ملنے والی بندوقیں بھی موت کے بعد وہاں رکھی گئیں، تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ برطانوی فوجی اسلحہ برآمد کرنے گئے تھے، اور کارروائی کے دوران سیف اللہ کے گھر والے مارے گئے۔
ان تمام ساختہ رپورٹوں کو علاقے کے ذمہ دار اعلیٰ افسر نے اس وقت ہی مسترد کر دیا تھا اور انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، افسر نے عدالت کو دیے بیان میں بھی واقع کو قتل عام لکھا اور کہا کہ ایس اے ایس اہلکاروں کے تمام بیانات ناقابل قبول تھے کہ برطانوی فوجیوں نے اپنے دفاع میں مقتولین کو قتل کیا۔
یاد رہے کہ ویڈیو ثبوت مٹ جانے اور شہادتوں کے گواہی نہ دینے کے باعث برطانوی کمیشن نے 2017 میں کارروائی ختم دی تھی، اور کسی بھی مجرم کو سزا نہ دی گئی تھی، یوں 2017 میں ہی عراق میں جنگی جرائم کے کمیشن نے بھی جنگی جرائم کے کسی مجرم کو سزا دیے بغیرتحقیقات ختم کر دی تھیں۔
برطانوی عدالت میں سیف اللہ کی وکیل ٹیسا گریگری کا کہنا ہے کہ فوجی پولیس، تحقیقاتی ٹیم اور پارلیمنٹ سے مایوسی کے بعد سیف اللہ کی واحد امید عدالتیں ہیں، اور سیف اللہ کو امید ہے کہ عدالتیں اسکے اہل خانہ کے ناحق قتل پر انصاف ضرور کریں گی۔