Shadow
سرخیاں
مغربی طرز کی ترقی اور لبرل نظریے نے دنیا کو افراتفری، جنگوں اور بےامنی کے سوا کچھ نہیں دیا، رواں سال دنیا سے اس نظریے کا خاتمہ ہو جائے گا: ہنگری وزیراعظمامریکی جامعات میں صیہونی مظالم کے خلاف مظاہروں میں تیزی، سینکڑوں طلبہ، طالبات و پروفیسران جیل میں بندپولینڈ: یوکرینی گندم کی درآمد پر کسانوں کا احتجاج، سرحد بند کر دیخود کشی کے لیے آن لائن سہولت، بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث، صرف برطانیہ میں 130 افراد کی موت، چشم کشا انکشافاتپوپ فرانسس کی یک صنف سماج کے نظریہ پر سخت تنقید، دور جدید کا بدترین نظریہ قرار دے دیاصدر ایردوعان کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رنگ برنگے بینروں پر اعتراض، ہم جنس پرستی سے مشابہہ قرار دے دیا، معاملہ سیکرٹری جنرل کے سامنے اٹھانے کا عندیامغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے، یہ ان کے خود کے لیے بھی خطرناک ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئے

بیرونی/اسلامی تہذیب کا خوف: ڈنمارک حکومت کا ملک میں غیرمغربی افراد کی آبادکاری پر 30٪ کی پابندی لگانے کا قانونی مسودہ تیار

ڈنمارک نے ملک کے کسی بھی علاقے میں غیر مغربی افراد کی آبادی کو ایک خاص حد تک روکنے کی پالیسی لانے کا اعلان کیا ہے۔ قانونی مسودے میں پالیسی کے جواز کے طور پر لکھا گیا ہے کہ اس کا مقصد آبادی میں ہم آہنگی برقرار رکھنا اور ملک میں متبادل معاشرے کے پروان چڑھنے کو روکنا ہے۔

قانونی مسودے پر گفتگو کرتے ہوئے وزیرداخلہ کارے دیبواد بیک کا کہنا تھا کہ کسی بھی علاقے میں غیرملکیوں کی بڑھتی آبادکاری ملک میں ایک مختلف مذہب کی بنیاد پر الگ تہذیبی معاشرے کی بنیاد بنے گی، وزیرداخلہ کا مزید کہنا تھا کہ حکومت معاشرے میں نئے مسائل کو روکنے کے لیے کچی بستیوں کا قیام روکنا چاہتی ہے۔

قانونی مسودہ ابھی ملکی پارلیمنٹ میں پیش ہونا ہے تاہم اس کے منظور ہونے پر کسی بھی علاقے میں غیرمغربی آبادکاری کو متعصبانہ قانون کے تحت 30٪ تک رکھا جا سکے گا۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق قانون منظور ہونے پر اس سے فی الفور 58 علاقوں میں آباد 100000 سے زیادہ غیر ملکی متاثر ہوں گے۔

یاد رہے کہ 2018 میں بھی ایک ایسے ہی قانون کے تحت ڈنمارک نے ملک کی کچی آبادیوں میں غیر مغربی اقوام سے آئے افراد کی تعداد 50٪ تک محدود رکھنے کی پابندی لگائی تھی۔

اس کے علاوہ ڈنمارک نے تارکین وطن اور مہاجرین کے لیے دیگر مغربی ممالک کی نسبت زیادہ سخت اور متعصب قوانین بنا رکھے ہیں۔ ڈنمارک 2010 سے ہر سال کچی آبادیوں میں اضافہ کر رہا ہے، اور انکی تعریف کو بھی متعصب طریقے سے بدلتا رہتا ہے۔ حالیہ تعریف کے مطابق کسی علاقے میں اگر بے روزگاری 40٪ تک ہو، 60٪ سے زائد درمیانی عمر کے افراد میں بنیادی تعلیم کی کمی ہو، افراد کی آمدنی کم از کم آمدنی سے 55٪ کم ہو اور جرائم کی شرح دیگر علاقوں سے 3 گناء زیادہ ہو تو اسے کچی آبادی گردانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی علاقے میں غیرملکیوں کی تعداد 50٪ تک ہو تو اسے بھی کچی آبادی کہا جاتا ہے، اور اگر کسی علاقے میں غیر ملکی چار سال سے زیادہ ٹھہر جائے تو اسے پرانی کچی آبادی کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔

تازہ اعدادوشمار کے مطابق ڈنمارک میں فی الحال 15 علاقے پرانی کچی آبادیوں کے کھاتے میں آتی ہیں جبکہ 25 کے جلد اس شمار میں شامل ہونے کا امکان ہے۔ واضح رہے کہ نئی قانون سازی اس تعداد میں مزید اضافے کا باعث بنے گی۔

وزیرداخلہ کا کہنا ہے کہ وہ کچی آبادیوں کو اب پسماندہ یا معاشی طور پر کمزور علاقوں کا نام دینا چاہتے ہیں۔یاد رہے کہ ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے خاندانوں پر ایک سال سے بڑے بچوں کو حکومتی نگہداشت کے اسکولوں میں بھیجنا لازم ہے اور قانون پر عملدرآمد نہ کرنے پر بھاری جرمانے اور سزائیں دی جاتی ہیں۔

یاد رہے کہ 2019 میں ڈنمارک حکومت نے جرائم کی شرح کم کرنے کے لیے چھوٹے مجرموں کو کچی آبادیوں سے رہائش بدلنے پر وظیفہ دینے کا اعلان کیا تھا۔

واضح رہے کہ ڈنمارک میں گزشتہ کچھ سالوں میں تارکین وطن کی تعداد میں حد درجہ اضافہ ہوا ہے، اسکی 11 فیصد آبادی تارکین وطن پر مبنی ہے جو مجموعی طور پر 57 لاکھ نفوس بنتی ہے، اس میں سے تقریباً آدھی مغربی ممالک سے ہی ہے۔

حکومت نے 2018 سے بغیر ویزہ کے رہنے والوں کو فوری ملک بدر کرنے اور پناہ کی درخواست کے منتظر افراد کو دور دراز جزیروں پر رکھنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ پالیسی پر سخت تنقید پر وزیر برائے ہجرت انگر ستویبرگ نے ایک بار صحافیوں سے اظہار رائے میں کہا تھا کہ مہاجرین کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ انہیں یہاں پسند نہیں کیا جاتا، جبکہ حکومت نے پناہ کی درخواستوں کی شرح کو انتہائی کم کرنے کے لیے نئی پالیسی لانے کا اعلان بھی کیا ہے۔

دوست و احباب کو تجویز کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

3 + one =

Contact Us