ایرانی روحانی پیشوا علی خامنہ ای کا کہنا ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت کو معاشی پابندیاں ہٹانے تک جوہری معاہدے پر دوبارہ گفتگو نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی یورینیم کی افزودگی کو روکنا چاہیے۔
ایرانی رہنما کا مزید کہنا تھا کہ بات چیت دباؤ بڑھانے کا بہانہ نہیں ہونا چاہیے، بلاوجہ گفتگو کو لٹکایا جا رہا ہے، صورتحال ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ امریکہ کی اب تک سامنے آنے والی تمام پیشکشیں ہتک آمیز ہیں، ان پر توجہ ملکی وقار کے خلاف ہے۔ دیکھا جائے تو صورتحال تعطل کا شکار ہے جہاں دونوں میں سے ایک حریف کو پیچھے ہٹنا ہو گا، اور دونوں ایک دوسرے کو پہلا قدم اٹھانے کی تائید کر رہے ہیں۔
ایران نے امریکہ کے معاہدے سے نکلنے کے بعد ہی یورینیم کی افزودگی شروع کر دی تھی، جس پر بائیڈن انتظامیہ نالاں ہے اور ایران سے افزودگی روکنے اور 2015 میں ہوئے معاہدے کے تحت قبول کی تمام شرائط پر واپس آنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔
معاہدے پر دوبارہ بات چیت رواں ہفتے ایک نئے موڑ پر آکر رک گئی جب ایران نے فلسطین پر قابض صیہونی انتظامیہ پر نطنز جوہری مرکز پر سائبر حملے کا الزام لگایا، جسے صدر حسن روحانی نے جوہری دہشت گردی قرار دیا اور 1000 مزید سینٹری فیوز لگا کر یورینیم کی افزودگی کو 60٪ تک لے جانے کا اعلان کیا۔ یاد رہے کہ اعلان جوہری معاہدے کے عین خلاف تھا۔ معاہدے کے تحت ایران توانائی کے حصول کے لیے صرف 3 اعشاریہ 67٪ تک افزودگی کر سکتا ہے، جبکہ ایران معاہدے کی تعطلی کے بعد سے اب تک افزودگی کو 20٪ تک لا چکا ہے، جس کے باعث امریکہ اور اسکے یورپی اتحادی ایران کو معاہدے پر واپس لانے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے نمائندگان بھی رپورٹ پیش کر چکے ہیں کہ ایران یورینیم کی افزودگی کو 60٪ تک لے جانے کی تیاری کر چکا ہے جس پر امریکی وزیر خارجہ نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ افزودگی کو 60٪ تک لے جانا اشتعال انگیزی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران بات چیت کے لیے سنجیدہ نہیں۔