برطانوی فوج کے وزیر افواج جیمز ہیاپی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں انخلاء کے بعد بھی اگر برطانیہ یا اسکے اتحادیوں کو خطرہ محسوس ہوا تو دوبارہ حملہ کرنے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ برطانوی وزیر کا کہنا تھا کہ برطانیہ افغانستان سے کسی بھی خطرے کی صورت میں دوبارہ فوجیں بھیجنے کا حق محفوظ رکھتا ہے، اور ایسا یکطرفہ طور پر بھی کیا جا سکتا ہے۔
افغانستان میں کچھ علاقے حکومتی کنٹرول کے باہر ہوتے ہیں، جہاں دہشت گرد پناہ لیتے ہیں، انہی پناہ گاہوں سے برطانیہ اور اسکے اتحادیوں کے مفادات کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، اگر اب بھی ایسا ہوا تو برطانیہ یکطرفہ یا دوبارہ نیٹو افواج کے ساتھ حملہ کرنے سے بالکل نہیں ہچکچائے گا، ارکان پارلیمنٹ سے گفتگو میں جیمز ہیاپی کا مزید کہنا تھا کہ ہم پرامید ہیں کہ افغانستان میں امن کا قیام مستقل ہو، اور طالبان بھی اسکا پیداواری حصہ بنیں۔ برطانیہ بھی امریکی نقش قدم پر ستمبر تک ملک سے اپنی 750 فوجی نکال لے گا۔
وزیر برائے افواج کا بیان ارکان پارلیمنٹ کے طالبان کے حوالے سے تحفظات سے بھرپور سوالات کے جواب میں سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے ارکان پارلیمنٹ کو یقین دلایا کہ ملکی مفادات کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور ضرورت پڑی تو پھر جنگ کریں گے۔
دوسری طرف برطانیہ میں دو دہائیوں پر محیط جنگ کی تحقیقات کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے، جس پر کچھ ارکان کا مؤقف ہے کہ اس جنگ سے برطانیہ نے کامیابی سے زیادہ ناکامی اور نقصان اٹھایا۔ تقیقات کا مطالبہ کرنے والے ارکان کا کہنا ہے کہ افغان جنگ کی بھی عراق جنگ کی طرز پر تحقیقات کی جائیں۔
یاد رہے کہ برطانیہ نے 2016 میں سر جان چلکوٹ کی سربراہی میں عراق جنگ کی تحقیقات کی تھیں جس میں سامنے آیا تھا کہ برطانیہ کو عراق یا صدام حسین سے کوئی خطرہ نہیں تھا، اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے امریکی دباؤ پر جنگ میں شمولیت کی، جس ہر سابق وزیراعظم کو وام سے معافی مانگنا پڑی تھی۔
برطانوی سیاسی حلقوں میں عراقی جنگ کی طرز پر افغان جنگ کی تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ ان کا کہنا ہےمغربی حکومتوں نے کیوں 9/11 کے بعد طالبان سے بات چیت سے مسئلے کو حل نہ کیا؟ اور کیوں مغربی طرز کا مرکزی نظام افغانستان پر مسلط کیا گیا؟ رکن پارلیمنٹ توبیاس ایلووڈ کا کہنا ہے کہ ہماری قوم اور فوجی ان سوالوں کا جواب چاہتے ہیں، تاکہ ہم سیکھ سکیں کہ ہم سے کیا غلطیاں ہوئیں، تحقیقات کی تحریک میں اب متعدد سکاٹی ارکان پارلیمنٹ بھی شامل ہو رہے ہیں۔
متعلقہ وزیر نے فی الحال کسی ایسی تحقیقات کے امکان کو مسترد کیا ہے لیکن انکا کہنا ہے کہ برطانیہ افغانستان میں کی غلطیوں سے ضرور سیکھے گا۔
یاد رہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے معاہدے کے تحت مئی 2021 تک افغانستان سے نکلنے سے معذرت کر لی ہے اور اب ستمبر تک وقت مانگا ہے، طالبان نے تاحال اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا البتہ معاہدہ توڑنے پر دھمکی ضرور دی ہے اور وقت کے حوالے سے مختلف حلقوں کا کہنا ہے کہ افغان حلقوں میں مشاورت جاری ہے۔