ایک نئی تحقیق کے مطابق گزشتہ سال مغربی طاقتوں نے اپنے عسکری اخراجات میں 1988 سے لے کر اب تک کی سطح کا سب سے بڑا اضافہ کیا ہے۔ اگرچہ 2020 میں وبائی مرض پھیلنے کے باعث عالمی معیشیت شدید مشکلات کا شکار رہی لیکن اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) کے مطابق کشیدہ حالات بھی بڑی طاقتوں کو فوج پر خرچ کرنے سے نہیں روک نہیں سکے۔ تحقیق کے مطابق گذشتہ سال کے مقابلہ میں دنیا بھر کے فوجی اخراجات میں 2.6 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور یہ 1.981 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے، جو 1988 کے بعد اب تک کی بلند ترین سطح ہے۔ واضح رہے کہ پچھلی دہائی کے نسبت عالمی فوجی اخراجات میں تقریباً 10 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ اس لیے بھی تشویشناک ہے کیونکہ گزشتہ ایک سال میں دنیا کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) میں 4.4 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔
ایس آئی پی آر آئی اسلحہ اور فوجی اخراجات پروگرام کے محقق ڈاکٹر ڈیاگو لوپس ڈاسلوا نے کہا ہے، “ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وبائی مرض کا سن 2020 میں مغربی ممالک فوجی اخراجات پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے۔” پھر بھی، کچھ ممالک، جیسے جنوبی کوریا اور چلی نے فوجی اخراجات کے لئے مختص رقوم کو وبائی بیماری کے ردعمل پر خرچ کرنے کو ترجیح دی جبکہ روس اور برازیل نے دفاعی اخراجات میں اس سال نسبتاً کم رقم خرچ کی ہے، اور عوامی صحت پر توجہ دی ہے۔
تاہم، امریکہ اب بھی وسیع فرق کے ساتھ دنیا کے سب سے بڑے فوجی اخراجات کرنے والا ملک ہے۔ واضح رہے کہ امریکی دفاعی اخراجات عالمی دفاعی اخراجات کا 39 فیصد ہے۔
امریکہ کے قریب ترین حریف چین نے گزشتہ سال کے مقابلے میں تین فیصد کم رقم خرچ کی ہے۔ چین کے فوجی اخراجات عالمی سطح پر ہونے والے اخراجات کے تقریباً 13 فیصد ہیں۔ بیجنگ کو فوجی بوجھ بڑھانے کی قیمت پر اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ اس کی معیشت 2020 میں اب بھی ترقی پذیر چند ممالک میں سے ایک ہے۔
ہندوستان اور برطانیہ نے بھی پانچ زیادہ فوجی اخراجات کرنے والوں کی فہرست میں جگہ بنا لی، حالانکہ ان کے دفاعی بجٹ چین کے مقابلے میں کافی چھوٹے ہیں۔ سعودی عرب فوجی اخراجات کرنے والے پہلے 10 ممالک میں واحد ایسا ملک ہے جس کے دفاعی اخراجات 2020 میں کم ہوئے ہیں۔