پھولی ہوئی سانسوں میں آٹا گوندھتے ہوئی نِدا کے بازو پر ماں کی نظر پڑی تو بے ساختہ چلا اٹھی کہ آج پھر نیل پڑے ہوئے ہیں، “پھر کسی نے جادو کا وار کیا ہے، ہاۓ میری بچی کو نجانے سوتے میں کتنا مارا ہے چڑیلوں نے، بیڑا غرق ہو دشمنوں کا”۔ اماں نے فوری چادر اوڑھی اور اپنے پیر کے پاس بھاگی، دوڑتے ہوئے ہمیں کہہ گئی کہ “ابا آئیں تو کہنا اماں سبزی لینے گئی ہے”۔
کچھ دیر بعد اماں واپس آئی اور فرش پر بیٹھ کر ایک تعویذ کو جوتے مارنے لگی، اور ساتھ ساتھ بولتی گئی کہ “جیسے میری بچی کو مارا تھا اب تو بھی مار کھا، آئندہ کبھی تیری ہمت نہیں ہو گی کہ میری معصوم جان کو نقصان پہنچائے۔ آج تو میں تمہیں جلا دوں گی”۔ یعنی نِدا کو مارنے والی چڑیل اب اماں کے قابو میں تھی، جوتے مارنے کے بعد اماں نے تعویذ جلایا اور سکون سے بیٹھ گئی۔
یہ ہمارے معاشرے کی موجودہ صورت حال ہے جہاں کم علم عورتیں حتیٰ کہ بسا اوقات بظاہر پڑھے لکھے افراد بھی آسانی سے ڈبہ پیروں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ کمزور ایمان کے مالک یہ افراد صرف جعلی عاملوں کا گورکھ دھندہ ہی نہیں چلانے بلکہ ساتھ ساتھ اپنا اعتماد اور قوت فیصلہ بھی کھو دیتے ہیں، اور اسی رویے کو اگلی نسل میں منتقل کرنے کا سبب بھی بنتے ہیں۔
المیہ تو یہ ہے کہ جعلی پیروں کے اشتہارات کیبل ٹی وی پر عام چلتے نظر آرہے ہیں، اسکے علاوہ ان کے کارندے مخصوص اوقات (جن میں مرد گھر نہ ہوں) میں جادو کے علاج کے اشتہارات گھروں میں پھینک جاتے ہیں، جن سے یہ آسانی سے گھریلو خواتین کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔ اشتہارات میں زبان انتہائی احتیاط سے استعمال کی جاتی ہے، اور عمومی معاشرتی مسائل کو جادوئی اثرات گردان کر گھریلو خواتین کو پھنسایا جاتا ہے۔ جنہیں حل کرنے کے لیے ڈبہ پیر بھاری بھاری رقوم بٹورتے ہیں۔

یہ سماجی مسئلہ جہالت اور شعور کی کمی کی وجہ سے پروان چڑھ رہا ہے، اس لیے یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس کے حل میں اپنا کردار ادا کریں، خصوصاً والدین، اساتذہ، ڈاکٹر، علماء اور شہری انتظامیہ کو متحرک ہونا ہو گا۔
مساجد و اداروں میں ماؤں کے لیے خصوی تربیتی نشتوں کا اہتمام ہونا چاہیے تاکہ وہ تربیت اولاد کے سلسلے میں بے جا خوف سے بچ سکیں اور ایک اچھی نسل کو پروان چڑھا سکیں۔
یاد رہے سانس کا پھولنا، جسم پہ نیل پڑنا، تھکن، بے چینی، نیند کی کمی، ہاتھ پاوں کا سرد ہونا خون کی کمی کی علامات ہو سکتی ہیں، جسے طبی زبان میں انیمیا کہا جاتا ہے۔ کاش میں ہر ماں کو سمجھا سکتی کہ خون کی کمی کسی تعویذ کو جوتے مار مار کر جلانے سے پوری نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر انیقہ احمد