برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں کچی آبادیوں میں منشیات فروشوں کے خلاف پولیس کارروائی کے دوران مارے جانے والوں کی تعداد 28 ہو گئی ہے۔ کاروائی کے خلاف کچی آبادیوں کے رہائشی احتجاج کر رہے ہیں اور انکا کہنا ہے کہ پولیس نے عام شہریوں کو نشانہ بنایا، جبکہ پولیس نے الزام مسترد کرتے ہوئے مرنے والے افراد کو منشیات فروش قرار دیا ہے، انکا کہنا ہے کہ منشیات فروشوں نے چھاپے کے دوران پولیس اہلکاروںں پر حملہ کیا، جس کے جواب میں پولیس کو بھی اسلحے کا استعمال کرنا پڑا۔
واضح رہے کہ جمعرات کے روز شروع ہونے والی کارروائی میں پہلے دن ایک پولیس افسر سمیت 25 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی شہر کی تاریخ کی سب سے بڑی کارروائی بتائی جا رہی ہے۔
پولیس کاروائی کے خلاف مقامی سماجی ذرائع ابلاغ پر بھی غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے، جس میں حزب اختلاف، معروف شخصیات اور مقامی سماجی کارکنان کی جانب سے کارروائی کو قتل عام قرار دیا جا رہا ہے۔ برازیل کے مشہور گلوکار انیٹا نے ٹویٹ کیا کہ پولیس نے “ریو کے سب سے بڑے فیویل میں دہشت گردی پھیلاتے ہوئے گھروں پر حملہ کیا”۔
مقامی لوگوں نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نہتے لوگوں پر گولیاں چلا رہی ہے، اور شہر میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شہری خون آلود گھروں اور سڑکوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر شائع کر رہے ہیں۔
شہری اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے ماورائے عدالت قتل وغارت کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ایک مقامی ہسپانوی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ مارے جانے والے افراد میں سے کم سے کم 13 پولیس کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل نہیں تھے، اور وہ بے گناہ مارے گئے۔
دوسری طرف پولیس نے کارروائی میں کسی قسم کی بدانتظامی کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے، حکومتی جماعت کے سیاستدانوں کی جانب سے پولیس کی پوری حمایت کا اعلان کیا جا رہا ہے، انکا کہنا ہے کہ شہر کو منشیات سے پاک کرنا ناگزیر ہو گیا تھا، پولیس کی کارروائی قانونی تھی، حکومتی ارکان کی جانب سے سخت بیانات کے بعد شہر میں حالات مزید کشیدہ ہونے کا خطرہ ہے۔