گزشتہ سال ڈرون حملے میں جاں بحق ہونے والے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل میں فلسطین پر قابض صیہونی انتظامیہ کے بھی ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ امریکی کمپنی یاہو نیوز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں صیہونی انتظامیہ کے بھی امریکہ کے معاون ہونے کا دعویٰ کیا ہے، اطلاعات کے مطابق صیہونی انتظامیہ اس واردات میں نامزد ہونے سے ہر صورت بچنا چاہتی تھی لیکن یاہو نیوز نے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔
ایرانی پاسداران انقلاب کے القدس جتھے کی کمان کرنے والے قاسم سلیمانی کو گزشتہ سال جنوری میں بغداد ہوائی اڈے کے قریب امریکی ڈرون حملے میں مار دیا گیا تھا، جس کے بعد پہلی بارامریکہ اور ایران کھلی جنگ کے لیے آمنے سامنے بھی ہوئے لیکن مشرق وسطیٰ میں جاری 20 برسوں سے جاری جنگوں کے بعد امریکہ ایک نئی جنگ شروع کرنے سے باز رہا۔
یاہو نیوز کی تحریر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور حکومت کے ابتدائی دنوں سے ہی قاسم سلیمانی کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی شروع کر دی تھی۔
پندرہ موجودہ اور سابق امریکی فوجی عہدیداروں کے انٹرویو پر مشتمل مضمون کے مطابق قاسم سلیمانی پر حملے کی منصوبہ بندی میں امریکی خفیہ ادارہ سی آئی اے، متعدد امریکی عسکری شعبوں کے ساتھ ساتھ قابض صیہونی انتظامیہ کے خصوصی فوج بھی شامل تھی۔
اگرچہ تحریر میں یہ واضح نہیں ہے کہ صیہونی ایجنسیوں کے پاس سلیمانی کی تفصیلات موجود تھیں یا نہیں، تاہم قابض انتظامیہ کی معاون کے موجود ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
صیہونی انتظامیہ کے ملوث ہونے کا دعویٰ اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ صیہونی انتظامیہ ہمیشہ حملے میں ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔ نیتن یاہو اور قابض صیہونی انتظامیہ کے عسکری جتھے کے ترجمان جوناتھن کونکریس نے تو ایک بار باقائدہ فرانس-24 سے گفتگو میں سلیمانی کے قتل میں ملوث نہ ہونے کا بیان دیا تھا۔
یاہو نیوز کی تازہ رپورٹ پر واشنگٹن میں صیہونی سفیر نے تاحال کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔
واضح رہے کہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت میں مبینہ طور پر صہونی انتظامیہ کی شمولیت تہران کے لیے حیران کن بات نہیں ہوگی۔ قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایران نے واضح طور پر واردات میں صیہونی ہاتھ ہونے کا الزام لگایا تھا۔ اس کے علاوہ ایران نے اپنے ایک جوہری سائنسدان کے قتل اور تیل ٹینکروں پر حملوں کا الزام بھی قابض صیہونی انتظامیہ کو ٹھہراتا ہے۔