اب لوگ کتابیں نہیں پڑھتے، کتابیں صرف سجاوٹ کے لیے رہ گئی ہیں۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ لوگ سماجی میڈیا پر کچھ تحریریں پڑھ لیتے ہیں مگر وہ بھی مختصر والی۔
اردو ادب میں مختصر نگاری کی ابتداء سعادت حسن منٹو نے کی۔ منٹو کے افسانچوں کا مجموعہ “سیاہ حاشیے” اسکی مثال ہے۔ موجودہ رجحانات کے مطابق بڑی کہانیاں کم سے کم لفظوں میں لکھنا ہی بہتر ہے۔ کم از کم کوئی پڑھ تو لیتا ہے۔ اعجاز احمد بٹ کا ایک افسانچہ ملاحظہ فرمائیے۔
پیلے ہاتھ
بیٹی: “ماں تمہارا رنگ کیوں پیلا ہے؟”
ماں: “بیٹی تمہارے ہاتھ جو پیلے کرنے ہیں۔”
ان دو جملوں میں کتنی بڑی کہانی ہے __ چاہیں تو اس پر ایک ضخیم سا ناول لکھ لیں، مگر کتنے لوگ پڑھیں گے؟
اسی طرح ابن صفی کے ایک ناول کے دو مکالمے یاد آ گئے۔ کرنل فریدی سارجنٹ حمید سے کچھ پوچھتا ہے، حمید کچھ الٹی سیدھی کہانی سناتا ہے۔
فریدی: “حمید تمہارے چہرے پر سچائی نظر نہیں آتی۔
حمید: “سچائی اتنی سستی چیز نہیں کہ چہروں پر سجا کر گھوما پھرا جائے۔”
مثالیں تو بےشمار ہیں مگر مضمون طویل ہو جائے گا۔