افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اسکول پر حملے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 70 سے بڑھ گئی ہے جبکہ 165 زخمی ہیں، کچھ زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے جس کے باعث ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ انتظامیہ کو بری طرح متاثر لاشوں کی شناخت میں دشواری کا سامنا ہے۔
پہلے پہل راکٹ حملے سے بتائے گئے دھماکے دراصل کار بم دھماکہ تھا، جس نے دارالحکومت کے مغربی حصے میں واقع سید الشہداء اسکول کو ہلا کر رکھ دیا، حملہ ہفتے کے روز چھٹی کے وقت کیا گیا جب طلبہ و طالبات دروس ختم کر کے گھروں کو جا رہے تھے۔ انتظامیہ کے مطابق پہلے بڑے دھماکے کے بعد دو چھوٹے دھماکے بھی ہوئے، جس سے وقوعہ سے بھاگنے والے بچے اور انکے لواحقین اور امداد کرنے والے افراد بھی متاثر ہوئے۔
اشرف غنی انتظامیہ کے کئی ارکان نے حملے کے لیے طالبان کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے، تاہم طالبان نے اس حملے میں ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی ہے اور اس کی شدید مذمت بھی کی ہے، طالبان کا مؤقف ہے کہ انہوں نے کبھی بھی عسکری مقاصد کے لیے عوامی مقامات کو نشانہ نہیں بنایا، یہ کارروائی داعش کی ہو سکتی ہے، تاہم، اب تک کسی نے بھی اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
امریکہ کے امن معاہدے کی میعاد کو پورا نہ کرنے کے اعلان کے بعد سے افغانستان میں تشدد کی نئی لہر اٹھی ہے، جس میں طالبان کے عسکریت پسندوں اور امریکی حمایت یافتہ سرکاری افواج کے درمیان جھڑپوں کے علاوہ دہشت گردی کے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔