بوسنیا ہرزیگووینا کی عدالت نے 21 سال بعد مقامی مسلمان خاتون کی زمین پر تعمیر ناجائز کلیسا کو منہدم کر کے زمین باور کروانے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ 78 سالہ فاطا حسینووچ کو 1992-95 کی جنگ کے دوران اپنے گھر سے نکال کر علاقہ بدر کر دیا گیا تھا۔ سربوں کے خلاف لڑتا اسکا خاوند شہید ہو گیا لیکن جب فاطا جنگ بندی کے بعد اپنے 7 بچوں کے ساتھ واپس آئی تو اسکی زمین پر سربیائی آرتھوڈوکس فرقے کا کلیسا تعمیر تھا، فاطا نے اپنی زمین پر قبضے کے خلاف بہت مزاحمت کی لیکن اسے سیاسی مسئلہ بنا دیا گیا اور بیوہ خاتون پر پیسے لے کر زمین بیچنے کے لیےدباؤ ڈالا جاتا رہا۔ فاطا نے ہر طرح کا دباؤ مسترد کر دیا اور 5 سال تک سماجی کوششوں کے بعد سن 2000 میں زمین کی وارگزاری کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ بوڑھی فاطا نے اپنے بچوں کو بھی نصیحت کی کہ اگر وہ اس جدوجہد کے دوران مر جائے تو پھر بھی کسی صورت میں قابضین کے ساتھ سمجھوتہ نہ کیاجائے اور خاندان کی زمین کو وارگزار کروایا جائے۔
آج 29 سال کے ناجائز قبضے اور 21 سال کی عدالتی جدوجہد کے بعد فاطا کو انصاف مل گیا ہے اور اس کے خاندان کی زمین سے کلیسا کو منہدم کر کے بازیاب کروا لیا گیا ہے۔ عدالت نے حکمنامے میں حکومت کو پابند کیا ہے کہ فاطا کے خاندان کو 60 لاکھ روپے ادائیگی بھی کرے، کیونکہ اسکے خاندان کو 29 سال تک تکلیف پہنچائی گئی۔
واقع کی خبر کو پوری دنیا کے اخبارات میں جگہ ملی ہے اور متعدد ممالک نے فاطاط کی جدوجہد اور ثابت قدمی کو سراہا ہے۔ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مغربی ممالک نے آرتھوڈوکس کلیسے کے لیے “غیر قانونی/ قابض سرب آرتھوڈوکس کلیسے” کی سرخیاں لگائی ہیں۔