جنوبی کوریا میں خاتون فوجی اہلکار کی خودکشی نے ہنگامہ برپا کر دیا ہے، صدر مون جائن نے معاملے کی مکمل تحقیقات کا حکم دے دیا ہے لیکن سماجی ماہرین کے مطابق اب واقعہ محکمہ دفاع کے ماحول اور خواتین کے معاشرے میں کردار اور قوانین پر گہرے اثرات چھوڑے گا۔
صدر جائن نے سیئول کے قومی قبرستان میں منعقد تقریب سے خطاب میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں فوجی بیرکوں میں موجود خواتین کے جنسی استحصال سمیت دیگر جرائم سے شدید دکھ پہنچتا ہے۔
صدر نے متاثرہ خاندان سے ملاقات میں خاتون کی حفاظت میں ریاست کی ناکامی پر معذرت کا اظہار کیا ہے، تاہم خبروں کے مطابق خاتون کے اہل خانہ نے معاملے کی تحقیقات اور انصاف دلانے میں ناکامی کا الزام لگاتے ہوئے نظام کو انکی بیٹی کی موت کا زمہ دار ٹھہرایا ہے۔
صدر مون نے وزیر دفاع کو ہدایت دی ہے کہ نہ صرف واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں بلکہ بیرکوں میں موجود اس استحصالی عمل کو ختم کرنے کے لیے حکمت عملی مرتب کی جائے۔
یاد رہے کہ جنوبی کوریا کی فضائیہ کی ایک اہلکار نے مارچ کے اوائل میں اپنے ایک مرد ساتھی پر جنسی زیادتی کا الزام لگایا تھا۔ متاثرہ خاندان کے مطابق خاتون نے اپنے اعلیٰ افسران کی طرف سے بھی اس کے ساتھ بدسلوکی کی شکایت کی تھی، متاثرہ خاندان کے مطابق افسران نے ملزم کو سزا دینے کے بجائے اس سے سمجھوتہ کرنے کے لیے بھی دباؤ ڈالا۔
لواحقین کا مزید کہنا ہے کہ فوجی نظام ثبوت کے طور پر کیمرہ ریکارڈنگ جمع کروانے کے باوجود مناسب تفتیش کرنے میں ناکام رہا، جس سے دل برداشتہ ہو کر “لی” نے خودکشی کر لی۔
فضائیہ کے سربراہ لی سیونگ یون نے شدید دباؤ کے باعث زمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا ہے، اطلاعات کے مطابق اب فوجی استغاثہ نے بھی فضائیہ کے مرکز میں تحقیقات کا دائرہ بڑھا دیا ہے، اس سے پہلے معاملے کی تحقیقات پر فائز افسر اور سینئر ماسٹر سارجنٹ کو بھی ذمہ داریوں سے فارغ کردیا گیاہے۔ جبکہ مرکزی ملزم کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔