Shadow
سرخیاں
پولینڈ: یوکرینی گندم کی درآمد پر کسانوں کا احتجاج، سرحد بند کر دیخود کشی کے لیے آن لائن سہولت، بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث، صرف برطانیہ میں 130 افراد کی موت، چشم کشا انکشافاتپوپ فرانسس کی یک صنف سماج کے نظریہ پر سخت تنقید، دور جدید کا بدترین نظریہ قرار دے دیاصدر ایردوعان کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رنگ برنگے بینروں پر اعتراض، ہم جنس پرستی سے مشابہہ قرار دے دیا، معاملہ سیکرٹری جنرل کے سامنے اٹھانے کا عندیامغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے، یہ ان کے خود کے لیے بھی خطرناک ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئےیورپی کمیشن صدر نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر جوہری حملے کا ذمہ دار روس کو قرار دے دیااگر خطے میں کوئی بھی ملک جوہری قوت بنتا ہے تو سعودیہ بھی مجبور ہو گا کہ جوہری ہتھیار حاصل کرے: محمد بن سلمان

امریکی استحصالی نظام کا پہلا شکار کون بنا؟ جنوب کی جابرانہ نظام کے خلاف جاری مزاحمت، پراپیگنڈے اور حقائق کی تاریخ

ریاست متحدہ ہائے امریکہ میں شمال اور جنوب کی تقسیم ہمیشہ ہی اپنا سیاسی رنگ دکھاتی رہتی ہے۔ 1861 میں 11 جنوب مشرقی ریاستوں کے اتحاد میں قائم ہونے والی ریاست اور تحریک کو بظاہر ابراہم لنکن نے خانہ جنگی کے خلاف جنگ میں کچل دیا تھا لیکن آج بھی اسکے لاکھوں کھلے اور کروڑوں پوشیدہ پیروکار امریکہ میں موجود ہیں اور اسکا جھنڈا فخر سے لہراتے رہتے ہیں۔

ریاست کی وفاقی حکومت کی (بظاہر) ہمیشہ سے کوشش رہی کہ اس جھنڈے اور تحریک سے نفرت کو پیدا کیا جا سکے یا کم ازکم اس سے وابستگی کو کم کیا جا سکے، حتیٰ کہ مرکزی دھارے کے ابلاغی اداروں میں تحریک سے وابستہ رہنماؤں کی منفی تصویر کشی بھی کی جاتی ہے اور انہیں نسل پرست، خارجی اور دقیانوس پیش کیا جاتا ہے لیکن ڈیڑھ سو سال کے بعد بھی اس میں ناکامی مقامی سیاسی و مالی اشرافیہ کے خلوص پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

سنز آف کنفیڈریٹ ویٹیرنز (ایس سی وی) نامی تنظیم کے مرکزی رہنما والٹر ڈی کینیڈی نے تحریک کے حوالے سے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کچھ حیران کن اقدار کا تعارف کرایا ہے، ان کا دعوی ہے کہ شمال کے استحصال کے خلاف تحریک ہمیشہ غلط رنگ دے کر بدنام کیا جاتا رہا ہے، وگرنہ تنظیم میں سیاہ فام افریقی نژاد امریکی، مقامی سیاسی اشرافیہ امریکی، ہسپانوی امریکی اور مشرقی یورپ کے شراکیت پسند امریکی بھی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ کینیڈی تنظیم کے دیگر نمایاں ارکان کی طرح فوجی گھرانے اور آزادی پسند ریاستوں کے معروف سیاسی حلقے سے بلواسطہ نسبتی تعلق رکھتے ہیں، کینیڈی کے دادا  شمال کے استحصال کے خلاف جنوب کی آزادی کی جنگ لڑے، جس میں ناکامی کے بعد اسے خانہ جنگی کا نام دے دیا گیا، اور ابراہیم لنکن اسکا ہیرو بن کر سامنے آیا۔

رشیا ٹوڈے سے ایک حالیہ گفتگو میں کینیڈی کا کہنا تھا کہ ان کے لوگ 1865 سے شمال کے استحصال کا شکار ہیں، وہ شکست خوردہ، مفتوح اور مقبوضہ عوام ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم بندوق کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ لیکن ہمیں اپنی سوچ اور فکر کے مطابق جینے کا اختیار نہیں ہے، انکی تذلیل کی جاتی ہے، انہیں جنوبی جاہل، نسل پرست، مطلبی، پسماندہ، ظالم جیسے منفی رویوں سے جوڑا جاتا ہے۔

گزشتہ امریکی صدارتی انتخابی مہم کے دوران جارج فلائیڈ نامی سیاہ فام کے قتل کے سیاسی استعمال کے نتیجے میں امریکی قومی ہیروؤں کی تذلیل اور انکے مجسمے ہٹانے کی تحریک کے باعث ملک میں ایس سی وی کو ایک بار نمایاں حیثیت حاصل ہوئی ہے، تنظیم کامؤقف ہے کہ اگر کسی علاقے میں مقامی آبادی مجسموں کو ہٹانا چاہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے اسے بطور پالیسی اپنانا قومی تاریخ اور ہیروؤں کی تذلیل کے مترادف ہے۔

کینیڈی کو علیحدگی/آزادی پسند جنرل ناتھن بیڈفورڈ فورسٹ اور ان کی اہلیہ کی لاش کو نکال کر دوسرے نامعلوم مقام پر منتقل کرنے پہ بھی اعتراض ہے، تنظیم کا مؤقف ہے کہ اگرچہ جنرل فورسٹ کی شمالی تناظر میں منفی تصویر پیش کی جاتی ہے لیکن جنوب میں وہ ہیرو ہیں، کینیڈی کا کہنا ہے کہ وہ صرف “یانکیوں” (شمالیوں) کے خلاف لڑنے والے جنوب کے جنگی ہیرو نہیں تھے بلکہ وہ شکست خوردہ جنوبیوں سے لوٹ مار کرنے والے لوٹیروں کے خلاف جنوبی عوام کے محافظ بھی تھے۔

یاد رہے کہ جنوبی اتحادی یا کنفڈریٹ واضح طور پر بدنام زمانہ کو کلکس کلین اور دیگر نسلی تعصب پر مبنی سرگرمیوں کی مذمت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شمال فورسٹ کو غلاموں کا تاجر گردانتا ہے، لیکن سیاہ فام افریقیوں کو پکڑ کر امریکہ لانے والوں کی حقیقی شناخت کو ظاہر نہیں کیا جاتا، اصل تاجروں کو تاریخ میں کبھی زیر بحث نہیں لایا گیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ سیاہ فام افریقیوں کے بڑے تاجر نیوانگلینڈ، میساچوسٹس، رہوڈ جزیرہ، کنیکٹیکٹ اور یہاں تک کہ نیو یارک میں ہوتے تھے، یہی لوگ انسانوں کو غلام بناتے اور انکی تجارت کرتے تھے، نہ کہ جنوب میں رہنے والے شہری۔

کینیڈی کا کہنا ہے کہ قومی ہیروؤں کے حق میں آواز اٹھانے پر ایک بار پھر آزادی پسندوں کے جھنڈے کے خلاف منفی پراپیگنڈا کیا جارہاہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افریقہ سے لاکھوں غلام لانے والے کسی بھی جہاز پر کنفیڈریٹشن کا جھنڈا نہیں لہراتا تھا بلکہ ان جہازوں پر ہسپانوی، فرانسیسی، انگریزی اور استحصالی ریاست امریکہ کے جھنڈے ہوتے تھے۔ انہوں نے امریکی نشریاتی اداروں کو استحصالی نظام کا معاون قرار دیا اور کہا کہ انکی حقیقت پر مبنی رائے کو کبھی بھی مرکزی دھارے میں جگہ نہیں دی گئی کیونکہ اس سے ان یانکیوں کی حقیقت عیاں ہوتی ہے، لیکن انہیں روس سمیت دنیا سے امید ہے کہ وہ استحصالی و ناجائز منافع خوروں کے خلاف انکی مدد کرے گی۔

کینیڈی کے مطابق ان کے پاس ایسی نمائندہ حکومت نہیں ہے جو ان کے مفادات کا تحفظ کر سکے، اور ان کی تاریخ کا دفاع کرے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حقیقی امریکی وہ ہیں، انکے اہل خانہ کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا حصہ ہونے پر فخر ہے، وہ آج بھی قومی فوج کا حصہ ہیں، جنوبی آج بھی شمال کی نسبت زیادہ وطن پرست اور وفادار شہری ہیں، لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ میں مافیا کا راج ہے اس کے استحصال کا پہلا شکار جنوبی تھے۔

حسن شہزاد وڑائچ – شعبہ وکالت، جامعہ پنجاب، لاہور

دوست و احباب کو تجویز کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

1 × four =

Contact Us