امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن نے ایرانی جوہری معاہدے کی بحالی میں تعطل کے امکانات کا اظہار کیا ہے۔ امریکی قانون سازوں سے گفتگو میں وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایران جوہری بم کی تیاری میں وقفے کے دورانیے کو ہفتوں تک کم کرنا چاہتا ہے، لیکن دوسری طرف امریکہ پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ امریکی معاشی پابندیاں مذاکرات میں رکاوٹ ہیں۔
بلنکن کا مزید کہنا تھا کہ ایک طرف مذاکرات جاری ہیں اور دوسری طرف ایران جوہری منصوبے کو بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا واضع طور پر کہا کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ ایران معاہدے میں واپسی کی شرائط کی تعمیل کے لیے تیار ہے یا نہیں۔
دراصل امریکہ اس مدت کے تعین میں مشکل کا شکار ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے میں کتنا وقت لگے گا، اس سلسلے میں صدر اوباما کے دور میں لگائے تخمینے اور آج کے دور میں نمایاں فرق ہے۔ 2015 میں معاہدے سے قبل ماہرین کا خیال تھا کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں ایک سال کا وقت لگ سکتا ہے، جبکہ حالیہ اندازوں کے مطابق اس کام میں لگ بھگ ساڑھے تین ماہ کا عرصہ درکار ہو گا۔
دوسری طرف ایران کا اس بات پر اصرار ہے کہ اس کا جوہری توانائی منصوبہ صرف شہری مقاصد کے لیے ہے اور اس کا ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ تاہم بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی اور اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کا کہنا ہے کہ اسلامی جمہوریہ 2018 تک جوہری مراکز پر سرگرمیوں کے معائنے کی مکمل اجازت دیتا رہا لیکن اس کے بعد رکاوٹیں ڈالی جاتی رہی ہیں۔
یاد رہے کہ 2018 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبرداری اختیار کرلی ہے، اور ایران پر الزام لگایا تھا کہ ایران معاہدے کی مکمل پاسداری نہیں کر رہا۔ امریکہ کا مؤقف تھا کہ ایران نے معاہدے کے مطابق یورینیم کی افزودگی کی حد کے برعکس اپنے پروگرام میں توسیع کے اقدامات اٹھائے ہیں۔
ایران نے الزامات کی تردید کی تھی اور اب معاہدے کی تمام شرائط پر واپس آنے کے لیے امریکہ پر تمام معاشی پابندیاں ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔
بلنکن کی بظاہر مایوسی کے باوجود، گذشتہ ہفتے یوروپی یونین کے نائب سیاسی چیف اینریک مورا نے کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ بات چیت کے اگلے مرحلے میں دونوں فریق کسی سمجھوتے پر پہنچ جائیں گے، جبکہ ایران نے بھی مذاکرات کے گزشتہ مرحلے میں کچھ پیشرفت کا اشارہ دیا تھا۔