چین نے امریکی رویے سے تنگ آکر جیسے کو تیسا کی پالیسی اپناتے ہوئے سابق امریکی وزیر برائے تجارت ولبر راس سمیت 6 اعلیٰ شخصیات پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ پابندیاں ہانگ کانگ کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور چینی حکام پر پابندیوں کے جواب میں لگائی گئی ہیں۔
ولبر راس سابق امریکی انتظامیہ کا حصہ تھے اور چین کے خلاف تجارتی جنگ میں شدت انہی کی پالیسیوں اور افکار کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ ولبر چین کوایشیا میں امریکی مفادات اور اثرورسوخ کے خلاف سب سے برا خطرہ سمجھتے تھے۔ انکا کہنا تھا کہ چین اصولی طور پر ایشیا میں سب سے بڑا عسکری اور معاشی خطرہ ہے۔
چینی پابندی کا شکار ہونے والے دیگر افراد میں امریکہ چین اقتصادی و سکیورٹی کمیشن کے سربراہ کیرولین بارتھالومیو، سابق کانگریس کمیشن برائے چین کے سربراہ جوناتھن سٹیور، قومی ادارہ برائے جمہوریت اور بین الاقوامی معاملات کے محقق ڈویون کیم، بین الاقوامی ریپبلک انسٹیٹیوٹ کے مینیجر اور ادارہ برائے انسانی حقوق کی نمائندہ برائے چین سوفی رچرڈ سن شامل ہیں۔
اس کے علاوہ چین نے امریکہ میں قائم نام نہاد ہانگ کانگ جمہوری کونسل نامی تنظیم کو بھی بلیک لسٹ کر دیا ہے۔ تنظیم امریکہ میں چین اور ہانگ کانگ کی انتظامیہ کے خلاف مظاہرے منعقد کرنے کے لیے کام کرتی ہے۔
چینی وزارت خارجہ نے ہانگ کانگ میں امریکی مداخلت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین کے اندرونی معاملات میں کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت بالکل ایسے ہے جیسے کہ کسی تناور درخت کو اکھاڑنے کی چیونٹی کی خواہش۔
امریکہ نے چینی پابندیوں کے اقدام پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ چینی الزامات بے بنیاد ہیں، ان اقدامات سے چین خود مزید تنہائی کا شکار ہو گا۔ ان سے امریکہ کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
واضح رہے کہ امریکہ چین پر سنکیانگ، تائیوان، تبت اور ہانگ کانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگاتا ہے جبکہ چین ان کی تردید کرتے ہوئے امریکہ کو اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیتا ہے۔