امریکہ میں حمل ضائع کیے بچوں کے اعضاء کو تحقیق کے لیے استعمال کرنے اور انکی خریدو فروخت کا انکشاف ہوا ہے۔ ایک نئی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت ان منصوبوں کو مالی معاونت فراہم کر رہی ہے جن میں حمل گرائے بچوں کے اجسام اور انکے اعضاء کو تحقیق کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ رپورٹ کی تفصیل کے مطابق ان بچوں میں سے بعض کے جسمانی اعضاء زندہ ہونے کی حالت میں نکالے جاتے ہیں۔
امریکی محکمہ صحت اور انسانی خدمت ( ایچ ایچ ایس) نے پیٹرس برگ یونیورسٹی کو 6 سے 42 ہفتوں تک کے حمل گرائے بچوں کے اعضاء حاصل کرنے کے لیے 60 لاکھ ڈالر کی معاونت فراہم کی ہے۔
اس انسانی سوز معاملے کی تفصیل اس وقت طشت از بام ہوئی جب ایک روایت پسند ادارے جوڈیشل واچ اور سینٹر فار میڈیکل پراگریس نے 252 صفحات پر مشتمل معلومات آزادی معلومات کے قانون کے تحت ایچ ایچ ایس سے حاصل کیں اور انہیں شائع کیا۔
رپورٹ کے مطابق پیٹرس برگ یونیورسٹی پچھلے تقریباً 10 سال سے اس عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے، جن میں حمل گرائے بچوں کے دل، گردے، ٹانگوں، دماغ اور دوسرے اعضاء کو نکال کر ان پر تحقیق کی جاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ادارے نے حکومت سے باقائدہ اس منصوبے کے لیے رقم کا مطالبہ کیا، اور اسے ہر سال بڑی رقوم فراہم کی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی نے صرف 2015 میں 77 سے زائد بچوں سے 300 سے زائد اعضاء نکالے اور انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
ادارے کے اس منصوبے کا ایک پہلو نسلی امتیاز پر بھی مبنی رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی نے فنڈز کی درخواست میں لکھا ہے کہ وہ 50 فیصد نمونے اقلیتی حمل سے حاصل کرنے کی متمنی ہے۔ یونیورسٹی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد ادارہ ہے جو امریکی حکومت کے تحقیقی اداروں کو معیاری نمونے فراہم کرتی ہے۔
سینٹر فار میڈیکل پراگریس نے انکشاف کیا ہے کہ جس طرح کے معیاری نمونے فراہم کرنے کا دعویٰ یونیورسٹی کررہی ہے اس سے زیادہ احتمال اس بات کا ہے کہ بچوں کی موت ان کے جسمانی اعضاء نکالنے کے عمل سے واقع ہوجاتی ہے۔ اگرچہ محکمہ صحت اور اس سے منسلک ادارے نے پورے عمل میں قانونی پاسداری کرنے کا دعویٰ کیا ہے تاہم اس رپورٹ سے وہ سبھی دعوے ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ 2019 میں ایلیکس جونز نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ میں زندہ بچوں سے اعضاء نکالے جاتے ہیں، جس پر تمام سماجی میڈیا کمپنیوں نے ایلیکس جونز کے کھاتے بند کردیے اور دوبارہ شمولیت پر بھی پابندی لگا دی۔
حالیہ رپورٹ کے سامنے آنے پر امریکہ اور متعدد ممالک میں ٹویٹر پر “ایلیکس جونز برحق تھا” کے نام سے موضوع زیر بحث ہے، جس میں سماجی میڈیا صارفین اس انسانیت سوز عمل اور جونز کے کھاتے بند کرنے کی مذمت کر رہے ہیں۔