افغان طالبان نے اقوام متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل کی اس رپورٹ کو مسترد کردیا ہے جس میں دعویٰ گیا تھا کہ امریکہ کے ساتھ معاہدے کے دوران بھی طالبان کے القاعدہ کے ساتھ رابطے رہے۔
سلامتی کونسل نے ایک تازہ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان میں سن 2019 کے اوائل تک طالبان کے القاعدہ کے ساتھ نہ صرف رابطے تھے بلکہ وہ طالبان کی مدد سے افغانستان کے مختلف علاقوں میں مزید مضبوط ہوئے۔
رپورٹ 27 مئی کو جاری کی گئی جو یکم جون کی شب منظرعام پر آئی۔ طالبان نے منگل کو اس رپورٹ کے ردعمل میں کہا ہے کہ سلامتی کونسل کے اُن پر لگائے گئے الزامات میں کوئی حقیقت نہیں، طالبان امریکہ کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر من و عن عمل درآمد کر رہے ہیں۔ ترجمان افغان طالبان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے جاری کردہ بیان میں سلامتی کونسل کے ان دعووں کی بھی تردید کی گئی ہے کہ طالبان جنگجو متحد نہیں، اور بعض دھڑے معاہدے سے خوش نہیں۔ ذبیح اللہ نے کہا کہ تمام جنگجو قیادت کے ہر حکم کی پابند ہے۔
حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے سلامتی کونسل نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ مذاکرات کے دوران حقانی نیٹ ورک القاعدہ کو تمام صورتحال سے آگاہ کرتا رہا۔ اور طالبان بھی القاعدہ کو یہ یقین دلاتے رہے کہ امریکہ کے ساتھ معاہدے سے اُن کے آپسی تاریخی تعلقات کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچے گی۔‘
سلامتی کونسل نے رپورٹ میں مزید دعویٰ کیا ہے کہ القاعدہ کے اہم رہنماؤں کے علاوہ مختلف بین الاقوامی شدت پسند تنظیموں کے جنگجو بھی اب تک افغانستان میں موجود ہیں، اور اُن کے طالبان کے ساتھ رابطے بھی ہموار ہیں۔
رپورٹ نے امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے پر مکمل عمل درآمد نے ہونے کے شبے کا اظہار کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ معاہدے کے نتائج حاصل ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ رپورٹ میں نیٹو افواج پر ممکنہ حملوں کے شبے کا اظہار بھی کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ طالبان نے ابھی تک موسم بہار کی کاروائیوں کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا تاہم معلومات کے مطابق اُن کے جنجگو کمانڈروں نے اس کے لیے تمام تر انتظامات مکمل کر لیے ہیں۔
مبصرین کی جانب سے سلامتی کونسل کی جانب سے رپورٹ ایسے وقت میں جاری کی گئی ہے جب طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ مکمل نہیں ہوا اور بین الافغان مذاکرات ابھی شروع ہونا ہیں۔
سلامتی کونسل کی رپورت کے مطابق طالبان جنگجو امریکہ طالبان معاہدے کی تمام شرائط سے آگاہ نہیں، اور ایسا لگ رہا ہے کہ القاعدہ کے ساتھ رابطہ نہ رکھنے کے بارے میں بھی اُنہیں کچھ علم نہیں۔ جبکہ طالبان کی سیاسی قیادت اور عسکری قیادت کے مابین بھی معاہدے پر اختلافات موجود ہیں، جس کے نتیجے میں نئے دھڑے اُبھر رہے ہیں۔
رواں سال فروری میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ القاعدہ سمیت کوئی بھی بین الاقوامی شدت پسند تنظیم افغان سرزمین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں کرے گی اور طالبان القاعدہ سمیت کسی بھی بین الاقوامی شدت پسند تنظیم کے ساتھ رابطے نہیں رکھیں گے۔
سلامتی کونسل کے مطابق اس وقت افغانستان میں 55 سے 85 ہزار طالبان جبکہ القاعدہ کے چار سے چھ سو کے درمیان جنگجو موجود ہیں، جبکہ ساڑھے چھ ہزار پاکستانی جنگجوؤں سمیت کئی دیگر بین الاقوامی شدت پسند بھی تاحال افغانستان کے محفوظ ٹھکانوں میں روپوش ہیں۔ رپورٹ کے مطابق طالبان اس وقت بھی افغانستان کے مختلف صوبوں میں اکیس اضلاع کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں۔