اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ عالمی برادری کو ہانگ کانگ میں بیجنگ حکومت کے نئے سکیورٹی قانون کی جانب توجہ دینا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایغور مسلمان، تبت کے باشندوں اور شہریوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنان پر ہونے والے مبینہ مظالم پر بھی کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ انسانی حقوق کے ان پچاس خصوصی نمائندوں نے سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ بھی کیا ہے تاکہ چین کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کی تعیناتی کا فیصلہ کیا جاسکے۔
یاد رہے کہ اویغور مسلمان اپنے خد و خال، زبان اور تہذیب میں چين کے اکثریتی نسل ”ہان ”چینیوں کی نسبت وسطی ایشیائی لوگوں سے زیادہ نزدیک نظر آتے ہیں۔سن 2014 سے اب تک 20 لاکھ اویغور مسلمان اور دیگر نسلی اقلیتوں کو انسداد دہشت گردی کی ایک مہم کے تحت کیمپوں میں نظر بند کیا گیا ہے۔چینی اویغوروں کو داڑھی رکھنے، پردہ کرنے اور انٹرنیٹ کے استعمال پر زیرِحراست لے لیا جاتا ہے
چین کی جیلوں کے نیٹ ورک کے بارے میں لیک ہونے والی سرکاری دستاویزات میں ملنے والی تفضیلات سے پہلی بار اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ کس طرح چین منظم نظام کے ذریعے مسلم اویغورں سمیت دیگر قیدیوں کی ’سوچ کو زبردستی تبدیل‘ کر رہا ہے۔
اس فہرست میں چین کے مغربی خطے سنکیانگ کے تین ہزار سے زیادہ افراد کی نجی معلومات درج ہیں جن میں قراقس کیمپ بھیجے گئے 311 افراد سے وابستہ خاندانوں کے 1800 سے زائد ارکان، پڑوسیوں اور دوستوں کے مکمل نام اور شناختی نمبر شامل ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ اس فہرست میں بچوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔اس میں ڈاؤن لوڈ کی گئی ویڈیوز اور انٹرنیٹ پر ہونے والی گفتگو کے دوران بھیجے گئے پیغامات، چہرے کی شناخت کرنے والے کیمروں کے ساتھ ہائی ٹیک نگرانی، جاسوسوں کے وسیع نیٹ ورک، گھروں کے دوروں اور تفتیش کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔
نوٹنگھم یونیورسٹی سے وابستہ ماہر رائن تھم کے مطابق ’تفصیل کی سطح بہت وسیع ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ تصورکرنا دلچسپ ہے کہ یہ واقعات سنکیانگ میں ہو رہے ہیں۔ جو ڈیٹا موجود ہے وہ چونکا دینے والا ہے۔‘
دستاویزات کے مطابق جہاں حراست میں رکھے گئے زیادہ تر افراد کی رہائی منظور کی گئی (جن کو بعد میں بھی زیر نگرانی رکھا جانا تھا) تو ان میں سے درجنوں افراد کو کارخانوں میں زبردستی کام کرنے پر ’مجبور‘ کیا گیا۔
چین کا اصرار ہے کہ وہ خطے میں انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے ’پیشہ ورانہ تربیت‘ کے مراکز کو چلا رہا ہے۔ تاہم ان ’ووکیشنل ٹریننگ سنٹرز‘ میں حراست میں رکھے گئے افراد نے الزام لگایا ہے کہ قیدیوں کو ان مراکز میں تشدد، طبی تجربات اور اجتماعی ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
گذشتہ ماہ یہ بات سامنے آئی تھی کہ چینی حکام نے خطے میں 100 سے زیادہ اویغور مسلمانوں کے قبرستانوں کو مسمار کیا ہے جس کے بارے میں انسانی حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ یہ چینی حکومت کی جانب سے مسلم اقلیت کی ثقافت کو ختم کرنے کی مہم کا حصہ ہے۔
لیکن برطانوی خبررساں ادارے بی بی سی نیوز کے مطابق سرکاری دستاویزات، جو بی بی سی پینوراما نے دیکھی ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے قیدیوں کو ان جیلوں میں قید رکھا جاتا ہے، کیسے ان کو سکھایا اور پڑھایا جاتا ہے اور ان کو کس طرح سزائیں دی جاتی ہیں ۔ یہاں تک کہ خواتین پر اجتماعی و انفرادی جنسی تشدد اور زبر دستی اسقاط حمل معمول کی بات ہے
چینی حکومت نے مسلسل یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ دور دراز کے مغربی سنکیانگ خطے میں قائم ان مراکز میں رضاکارانہ طور پر تعلیم اور تربیت فراہم کرتے ہیں۔
چین کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں رائج پالیسی یہی ہے کہ ‘احترام اور لوگوں کی مذہبی آزادی کو یقینی بنایا جائے۔’ وہ اپنے ووکیشنل تربیتی پروگرام کا بھی دفاع کرتا ہے اور اسے دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے کے مقصد کے لیے بنایا گیا پروگرام قرار دیتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو دہشت گردی یا مذہبی انتہاپسندی کے جرائم کی بنا پر مجرم قرار دیے گئے ہیں انھیں یہاں ’تعلیم‘ دی جاتی ہے۔