تین بادشاہ آپس میں بہت گہرے دوست تھے وہ سال کا کچھ وقت اکٹھے گزارا کرتے تھے ایک دفعہ انہوں نے
فیصلہ کیا کہ اگلی بار ملنے سے پہلے وہ اپنی اپنی ریاست کو خوبصورت بنائیں گے اور پھر فیصلہ ہوگا کہ کس کی ریاست زیادہ خوبصورت ہے
ان تینوں دوستوں نے اپنی اپنی ریاست کو خوبصورت بنانے کے لئے سارا سال سخت محنت کی اور جب ملاقات کا وقت آیا تو تینوں ممالک کے بادشاہوں نےمنصفین کا انتخاب کیا اور ان کو اپنے ساتھ تینوں ریاستوں کا دورہ کرنے کی درخواست کی تاکہ وہ اس بات کا فیصلہ کرسکیں کہ کس بادشاہ کی ریاست زیادہ خوبصورت ہے
سب سے پہلے جس ریاست کا دورہ کیا گیا اس کی تمام عمارتوں کو نہایت خوبصورت انداز میں میں سجایا گیا تھا ان عمارتوں کی تزئین و آرائش بھی عمدہ انداز میں کروائی گئی تھی پورے علاقے میں کوئی بھی ایسی عمارت نہ تھی جو ٹوٹی پھوٹی اور بدنما ہو جج حضرات بہت متاثر ہوئے کیونکہ عمارتیں بہت خوبصورت تھین لیکن انہوں نے دیکھا کہ ان عمارتوں کے آس پاس جو لوگ چل پھر رہے ہیں ان کے کپڑے بے رنگ اور بدنما ہیں اوران کے چہروں پر پیلاہٹ چھائی ہوئی ہے چہروں پر تھکن اور پریشانی صاف نمایاں ہے
دوسرے بادشاہ نے اپنی مملکت کو باغات سے سنوارا تھا اس نے طرح طرح کے درخت اور پودے لگوائے تھے زمین کا کوئی ٹکڑا ایسا نہ تھا جو پھولوں سے نہ سجا ہو ہر طرف بہار کا سماں تھا مگر لوگوں کے چہرے بے رونق تھے ان پر کوئی رنگ نہ تھا پر نقابت اور کمزور نظر آتے تھے یہ منظر منصفین کی نظروں سے چھپ نہ سکا
جب تیسری ریاست کا دورہ شروع ہوا تو ججوں نے دیکھا کہ وہاں کے لوگ رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس اپنے بادشاہ کا استقبال کر رہے ہیں پھولوں کی پتیاں نچھاور کررہے ہیں بچے گیت گا رہے ہیں ہر طرف خوشی کا عالم ہے اور میلے کا سا سماں ہے یہ منظر ججوں کی نظروں کو بہت بھایا اور یہ ہی ریاست سب سے زیادہ خوبصورت قرار دی گئی
لندن کی صبح ہوتی ہے تو صاف ستھری سڑکوں پر حد نظر تک جدید گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں مگر ان آرام گاڑیوں میں میں بیٹھا ہوا ہر شخص بے آرام نظر آتا ہے ہر ایک اپنی منزل پر پہنچنے کے لئے بے چین ہے بسوں اور ٹرینوں میں سفر کرنے والے کچھ لوگ اونگ رہے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ سو رہے ہوتے ہیں کچھ نیند سے اچانک اٹھ جاتے ہیں اور کھڑکی سے باہر جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ جان سکیں کہیں منزل تو نہیں گزر گئی اور کچھ لوگ اس قدر حالت سکون میں ہوتے ہیں کہ ان پر بت کا گمان ہوتا ہے وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرانا تو دور کی بات نظر ملاتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں اور اچانک نظر مل جانے پر ایسے نظریں جھکا تے ہیں جیسے کوئی چوری پکڑی گئی ہو کچھ تو مطالعہ کے اتنے شوقین ہوتے ہیں کہ ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر بھی کتاب کو پڑھنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں اپنی نظریں کتاب پر ایسے جمائی ہوتی ہیں جیسے وہ ان الفاظ کے متلاشی ہیں جو ان کے ذہن کو سکون و آسودگی دے سکیں سڑکوں پر چلنے والے لوگ جم غفیر کی صورت میں ایسے دوڑتے ہیں جیسے ان کے پیچھے طوفان نوح آ رہا ہے اور وہ پناہ کی تلاش میں ہیں آنکھوں میں خالی پن اور ادھورے پن کا احساس صاف نظر آتا ہے
لندن سے دور رہنے نے والے باسی اہل لندن کی وضع قطع کو اور ان کے لباس کی تراش خراش کو جدید فیشن کا نام دیتے ہیں بیچارے یہ لوگ کیا جانے کہ ان لوگوں کے پاس تو اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے لباس کی شکنوں کو ہی دور کر سکں لیکن کچھ اس بے ڈھنگے پن کو فیشن سمجھ لیتے ہیں در حقیقت یہ بے ترتیب بال اور شکن در شکن لباس وقت کی کمی کا احساس دلاتا ہے یہ اس محرومی کا نشان ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ لوگ کشتی حیات میں تو سوار ہیں مگر زندگی کی نعمتوں اور لذتوں سے ناآشنا ہیں
ہاتھوں میں میں برگر کافی اور کولڈ ڈرنک لیے ہوئے یہ لوگ صرف بھوک کا گلا دباتے ہیں کھانے کا مزا نہیں لیتے ہاتھوں میں کھانا اٹھائے ایسے چلتے ہیں جیسے گھر پر بیٹھ کر کھانے کی اجازت نہیں ہے یہ لندن تو مجھے اداس نظر آتا ہے لوگوں کے سفید رنگ پر زندگی کی قوس و قزح نہیں چمکتی رنگ طمانیت نظر نہیں آتا احساس فرحت دکھائی نہیں دیتا لبوں پر خاموشی کی مہر ثبت ہے یہاں خوبصورت بلندوبالا عمارتیں ہیں مگر عمارتوں میں بسنے والے لوگ لوگ پتھر کی مورتیوں کی طرح نظر آتے ہیں احساس آسودگی نہیں ہیں یہاں باغات میں آنے والے لوگوں کے چہروں پر رنگ و نور نہیں ہے پھول تو ہیں مگر خوشبو کا ادراک نہیں ہے
حیران و پریشان سوچتی ہوں یہ لندن کیسا لندن ہے