امریکی پولیس کی دہشت گردی اور خباثت ختم نہ ہوئی ۔اس نے اس بار لاطینی امریکی نژاد شہری رے شارڈ بروک کی جان لے لی۔
بروکس کی ہلاکت کا واقعہ بارہ جون کی رات اس وقت پيش آيا، جب وينڈیز نامی فاسٹ فوڈ ريستوراں کی جانب سے پوليس کو یہ شکايت کی گئی تھی کہ ايک شخص اپنی گاڑی ميں سو گيا ہے، جس کی وجہ سے ڈرائيو تھرُو ميں گاڑياں پھنس کر رہ گئی ہيں۔ موقع پر پہنچنے والے پوليس اہلکاروں کے مطابق ستائيس سالہ رےشارڈ بروکس کا ‘فيلڈ سوبرائٹی ٹيسٹ‘ کيا گيا، جس ميں وہ ناکام رہا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار يہ ٹیسٹ اس وقت کرتے ہيں، جب انہيں يہ شبہ ہو کہ کوئی مشتبہ شخص شراب يا کسی اور نشہ آور مادے کے زير اثر ہے اور اس لیے ڈرائيونگ کرنے کے قابل نہيں رہا۔ اس ٹيسٹ ميں ناکامی کے بعد جب پوليس اہلکاروں نے رےشارڈ بروکس کو حراست ميں لينے کی کوشش کی، تو اس نے مزاحمت کی۔

تفصیلات کے مطابق امريکی رياست جارجيا کے دارالحکومت اٹلاٹنا ميں جمعہ بارہ جون کی شب ايک افريقی نژاد امريکی شہری رےشارڈ بروکس کی پوليس اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ایک متعلقہ پوليس اہلکار کو برطرف جبکہ ایک اور کو معطل کر ديا گيا۔ جس پر اٹلانٹا کے محکمہ پوليس کی خاتون سربراہ ايريکا شيلڈز نے کل ہفتہ تيرہ جون کو اپنے عہدے سے استعفیٰ بھی دے ديا تھا۔
عينی شاہدين کے مطابق پوليس اہلکار بروکس سے جھگڑتے دکھائی ديے اور انہوں نے اسے بجلی کا جھٹکا لگانے کے لیے ٹيزر گن بھی استعمال کی۔ ايک موقع پر بروکس ان کے چنگل سے نکلنے ميں کامياب رہا اور بھاگ نکلا۔ اس پر پولیس نے فائرنگ کی اور رےشارڈ بروکس کو تين گولياں لگیں۔ بعد ازاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔

واضح رہے کہ امریکہ کے علاوہ دنیا بھر میں نسل پرستی کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور اس بار امریکی پولیس کی نئی کرتوت سامنے آئی ہے۔ آئے دن سیاہ فاموں کے خلاف امریکی پولیس کے ذریعہ روا رکھے گئے ظلم و تشدد کی ویڈیوز سامنے آتی رہتی ہیں، اس بار امریکی پولیس کی دہشت گردی کی نئی ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں لاطینی نژاد شہری کو امریکی پولیس نے فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا ہے۔ انسانی حقوق اور مساوات کے کھوکلے نعرے لگانے والے امریکہ کی قلعی دنیا کے سامنے کھل گئی ہے۔

یاد رہے کہ سفید فام پولیس افسر ڈریک شوون نے پچیس مئی کو نو منٹ تک اپنے گھٹنے سے گردن دبا کر ایک سیاہ فام امریکی شہری جارج فلوئیڈ کو قتل کر دیا تھا۔ سفید فام پولیس افسر کے اس وحشیانہ اقدام کے خلاف پورے امریکہ میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور جگہ جگہ پولیس کی نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے جارہے ہیں جن کا دائرہ امریکہ کی سبھی پچاس ریاستوں میں پھیل گیا ہے۔ملک گیر احتجاج میں شدت کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نسل پرستی کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو بارہا تشدد کا حامی، بلوائی اور دہشت گرد قرار دیا ہے۔