مسلم دنیا سے نظام شمسی کے دیگر سیاروں پر تحقیق کے لیے پہلا خلائی جہاز آئندہ چند ہفتوں میں پرواز کر جائے گا۔ مریخ پر جانے والا یہ پہلا عرب خلائی منصوبہ ہو گا۔ منصوبے کو “الامل” کا نام دیا گیا ہے، جو چودہ جولائی کو جاپانی جزیرے تاناگشیما سے پرواز کرے گا۔ منصوبے کی سربراہ سارہ الامیری کا کہنا ہے کہ آئندہ چند روز میں خلائی جہاز میں ایندھن بھرنے کا کام شروع کر دیا جائے گا۔
اگرچہ متحدہ عرب امارات سے خلائی سفر کی روایت موجود ہے اور اس سے قبل متحدہ عرب ریاست کا ایک مصنوعی سیارہ اپنے ایک خلاباز کو لے کر بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پرجا چکا ہے۔ تاہم “الامل” زمین کے مدار سے نکل کر دیگر سیاروں کی تحقیق پر جانے والا پہلا منصوبہ ہوگا۔
عرب دنیا سے اس سے قبل سعودی شہزادے سلطان بن سلمان آلسعود بھی خلائی سفر پہ جا چکے ہیں، جنھوں نے 1985 میں امریکی خلائی جہاز پر اڑان بھری تھی۔
الامل منصوبے کا آغاز 2015 میں کیا گیا اور اسے مریخ کے مدار تک پہنچنے میں 308 ملین میل کا سفر طے کرنے میں سات ماہ کا عرصہ لگے گا، جہاں سے یہ خلائی جہاز مریخ اور اس کی آب و ہوا اور ماحول کے بارے میں اہم معلومات بھیجنا شروع کر دے گا۔
مریخ کی آب و ہوا اور ماحول کے متعلق مناسب ڈیٹا جمع کرنے کے لیے یہ روبوٹی خلائی جہاز پورے687 دن تک مریخ کے گرد چکر لگائے گا۔ مریخ کے مدار میں ایک چکر لگانے میں خلائی جہاز کو 55 گھنٹے لگیں گے۔
اس سے قبل مریخ پر صرف امریکہ اور سوویت یونین کے خلائی جہاز کامیاب منصوبے کر چکے ہیں، تاہم عرب امارات کا یہ منصوبہ ارضیائی تحقیق کے بجائے ماحولیاتی اور آب و ہوا سے متعلق معلومات اکٹھی کرے گا۔
الامل میں تین طرح کے سینسر نصب ہیں جو مریخ کے پیچیدہ ماحول کا جائزہ لیں گے۔ ان میں ہائی ریزولیوشن ملٹی بینڈ کیمرہ بھی شامل ہے جو اس سیارے کی دھول اور اوزون کی پیمائش کرے گا۔ دوسرا انفراریڈ سپیکٹومیٹر ہے جو سیارے کی فضا کی پیمائش کرے گا اور تیسرا سپیکٹو میٹر آکسیجن اور ہائیڈروجن کی سطح کی پیمائش کرے گا۔
منصوبے کی سربراہ سارہ الامیری نے کہا کہ اس منصوبے سے عرب نوجوانوں کو خلائی تحقیق کے شعبے میں اپنا کردار ادا کرنے کی ترغیب ملے گی۔
سارہ الامیری کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کا ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ پتہ چلایا جائے کہ پانی کے لیے ضروری یہ دو عناصر کس طرح سیارے سے ختم ہو رہے ہیں۔
الامل منصوبے کو چند ہفتے قبل خلاء کے لیے پرواز بھرنا تھی تاہم کورونا کے باعث اختیاطی طور پر خلاء بازوں کو قرنطینہ کر دیا گیا جس کے باعث منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا۔
خلائی تحقیق پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے خلائی صنعت میں ایک بڑی تبدیلی آنے والی ہے، اب یہ صنعت صرف بڑی طاقتوں کے زیر اثر نہیں رہ سکتی۔