Shadow
سرخیاں
پولینڈ: یوکرینی گندم کی درآمد پر کسانوں کا احتجاج، سرحد بند کر دیخود کشی کے لیے آن لائن سہولت، بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث، صرف برطانیہ میں 130 افراد کی موت، چشم کشا انکشافاتپوپ فرانسس کی یک صنف سماج کے نظریہ پر سخت تنقید، دور جدید کا بدترین نظریہ قرار دے دیاصدر ایردوعان کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رنگ برنگے بینروں پر اعتراض، ہم جنس پرستی سے مشابہہ قرار دے دیا، معاملہ سیکرٹری جنرل کے سامنے اٹھانے کا عندیامغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے، یہ ان کے خود کے لیے بھی خطرناک ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئےیورپی کمیشن صدر نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر جوہری حملے کا ذمہ دار روس کو قرار دے دیااگر خطے میں کوئی بھی ملک جوہری قوت بنتا ہے تو سعودیہ بھی مجبور ہو گا کہ جوہری ہتھیار حاصل کرے: محمد بن سلمان

مغربی ممالک میں ایشیا اور افریقی باشندوں کی کورونا سے ہلاکتوں کا تناسب زیادہ کیوں؟

اگرچہ کوروانا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے تاہم مغربی ممالک میں اموات کی شرح اب تک دیگر ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ متحدہ ہائے امریکہ اب تک ایک لاکھ آٹھ ہزار افراد کی ہلاکت کے ساتھ سب سے زیادہ ہلاکتوں والا ملک ہے جبکہ برطانیہ لگ بگھ چالیس ہزار کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم ان میں آبادی اور اموات کی شرح کے لحاظ سے ایشیا اور افریقی باشندوں کا تناسب زیادہ ہے۔ جبکہ تحقیقی اندازوں کے مطابق آئندہ متاثرہ مریضوں میں متذکرہ گروہوں میں موت کی شرح 50 فیصد تک جا سکتی ہے۔

اس موضوع پر چہ مگوئیاں شروع ہوئیں تو مغربی ذرائع ابلاغ عامہ پر مختلف ماہرین وجوہات سے متعلق اپنی رائے دیتے نظر آئے، خصوصاً جب متاثرہ افراد کے آبائی ممالک سے بھی تشویش کا اظہار سامنے آںے لگا ہے۔

تشویش کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ امتیازی معاملہ صرف مغربی ممالک میں مقیم تارکین وطن میں سامنے آرہا ہے، جبکہ مشرق وسطیٰ خصوصاً خلیجی ممالک میں بھی تارکین وطن کی بڑی تعداد مقیم ہے۔ بلکہ وہاں ان کی تعداد مغربی ممالک کی نسبت کئی گنا زیادہ ہے۔ صرف پاکستانیوں کی تعداد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں 40 لاکھ کے لگ بگھ ہے، لیکن وہاں ایسی امتیازی شرح اموات نہیں ہے۔ ایسے میں مغربی ممالک میں تارکین وطن یا ایشیا و افریقی نژاد مغربی ممالک کی شہریت کے حامل باشندوں کی نسبتاً زیادہ اموات تشویش طلب معاملہ ہے۔

صورتحال پر برطانیہ اور امریکہ کے مختلف مقامی ماہرین کی جانب سے مبینہ تحقیقی دعوے سامنے آرہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فرق کی وجہ ان افراد کے رہن سہن کا طرز، کمزور معاشی حیثیت اور صحت پر عدم توجہ یا سہولیات کا فقدان ہے۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ایشیا اور افریقی نژاد باشندے خط غربت سے نیچے زندگی گزارتے ہیں، وہ بمشکل سرکاری اسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولیات لینے کے قابل ہوتے ہیں، جہاں نجی شعبے کی نسبت سہولیات کم اور دباؤ زیادہ ہوتا ہے۔ جبکہ ان کا رہن سہن بھی مقامی یورپی افراد کی نسبت ایسا ہے کہ وہ سماجی مسافت جیسی ہدایات پر مکمل طور پر عمل نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ غیر یورپی باشندوں کی زیادہ ہلاکتوں کی وجہ ان کا عمومی طور پر شعبہ طب، ڈرائیوری اور دیگر ایسے غیرمحفوظ شعبہ جات زندگی سے وابستگی بھی ہے۔ کچھ طبی ماہرین نے اسے جینیاتی مسئلہ قرار دینے کی بھونڈی کوشش بھی کی ہے جبکہ ان افراد کے آبائی علاقے کورونا سے مغربی ممالک کی نسبت بدرجہ کم متاثر ہوئے ہیں۔

آج روس نے معاملے کی تہہ تک جانے کی کوشش میں جب برطانیہ اور امریکہ میں مقیم پاکستانی تارکین وطن سے ان کی رائے کے لیے رابطہ کیا تو ان میں سے بکثرت نے اوپر دیے گئے مفروضہ جات پر بے یقینی کا اظہار کیا۔

لندن میں شعبہ ڈرائیوی سے وابستہ سیالکوٹ کے ایک شہری وجاہت حسین کا کہنا ہے کہ ایک اوسط درجے کے یورپی باشندے کی نسبت ایک اوسط درجے کے ایشیائی باشندے کا رہن سہن برطانیہ میں زیادہ بہتر ہے۔ عموماً ایشیائی تارکین وطن محنتی اور ہر ممکن حد تک بہتر رہن سہن کا خیال رکھتے ہیں۔ عمومی طور پر سڑکوں پر بھیک مانگتے والوں میں زیادہ مقامی یورپی نظر آئیں گے بنسبت غیر ملکیوں کے، بےگھر افراد میں بھی مقامی یورپی ہی زیادہ ہیں، اور غیر یورپی بے گھر افراد خصوصاً ایشیائی باشندے نہ ہونے کے برابر ہیں۔

مغربی معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ بے گھر افراد ہیں

صحت کی سہولیات سے متعلق ایک دوسرے شخص نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کو لے کر امتیازی سہولیات کا نقطہ کسی حد تک درست ہے۔ پر اس میں نسلی تعصب کا عمل دخل بھی سامنے آیا ہے۔ خصوصاً مصنوعی سانس دینے کے آلات وینٹی لیٹر کے استعمال میں امریکہ میں باقائدہ کچھ واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں سیاہ فام افراد کی نسبت گورے مریض کو ترجیح دی گئی یا غیر ملکی مریضوں کو غیر موزوں دباؤ کے ساتھ وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا، جس سے جلد ان کی موت واقع ہو گئی۔

ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری علی رضا نے مشرق وسطیٰ میں مقیم اپنے بھائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ خلیجی ممالک اور ان میں مقیم تارکین وطن کے رہن سہن کو دیکھ چکا ہے، گھروں میں زیادہ رقم بھیجنے کے لالچ اور سخت انتظامی ہدایات نہ ہونے کی وجہ سے خلیجی ممالک میں ایک فلیٹ یا رہائش میں درجنوں افراد مل کر رہتے ہیں، جبکہ برطانیہ میں مقیم تارکین وطن میں یہ رویہ نسبتاً کم ہے، اور اکثر افراد نجی گھروں یا کم از کم خلیجی ممالک میں اوسط درجے کے تارک وطن مزدور کی نسبت بہتر انداز میں رہتے ہیں۔ اگر اس مسئلے کا تعلق رہن سہن سے ہوتا تو مشرق وسطیٰ میں مقیم تارکین وطن سب سے زیادہ متاثر ہوتے، جو لاکھوں مں ہیں، تاہم ایسا بالکل نہیں ہے۔

خلیجی ممالک میں تارکین وطن کے رہنے کا عمومی انداز

اوپر بیان کی گئی صورتحال شعبہ جات کے نقطہ نظرسے بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ خلیجی ممالک میں بھی شعبہ طب سے وابستہ بڑی تعداد غیر ملکیوں کی ہے، جن میں نہ صرف ایشیائی اور افریقی باشندے بلکہ یورپی افراد بھی شامل ہیں تاہم وہاں اموات کی شرح میں مقامی یا غیر مقامی افراد کے درمیان فرق نہیں ہے۔

لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مغربی ممالک میں کورونا سے اموات کی شرح میں نسلی فرق کی وجوہات میں نسلی تعصب اور دیگر عوامل بھی شامل ہیں جنہیں باقائدہ چھپایا جا رہا ہے۔ ایک پاکستانی نژاد برطانوی پروفیسر کا کہنا ہے کہ معاملے کو یوں ذرائع ابلاغ عامہ پر اجاگر کرنے کا تعلق آئندہ امریکی انتخابات اور مغربی ممالک میں قدامت پسندوں اور لبرلوں کے درمیان جاری حالیہ کشمکش میں معاملے کو بطور سیاسی فائدہ استعمال کرنے کی کوشش سے بھی ہو سکتا ہے۔ خصوصاً جبکہ مغربی ممالک میں مقیم ایشیائی تارکین وطن میں کم از کم اس موقع پر کسی نسلی تعصب کا احساس نہیں ہے۔ اور خلیجی ممالک کا مکمل تالہ بندی میں جانا انہیں مغربی ممالک میں وباء کےشدید اثرات سے ممتاز کرتا ہے۔

دوست و احباب کو تجویز کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

nineteen − 5 =

Contact Us